کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 177
’’قوموں کے عروج و زوال میں اس بات کو بڑا دخل ہے کہ خارجی کائنات اورOuter Space کے بارے میں ان کا نظریہ کیا ہے؟ انسان کے شعور نے جب پہلے پہلے آنکھ کھولی تو فضا اور ماحول اس کے خلاف تھا، سر پرآگ برسانے والا شعلہ، آندھیاں، جھکڑ، بجلی کی کڑک، بادلوں کی گرج، بپھرے ہوئے دریا اور ان کے درمیان نہتا اور تنہا انسان، نہتا یوں کہ فکرودانش میں پختگی پیدا نہ ہوئی تھی۔ وہ فطرت کی طاقتوں کے سامنے جھکنے لگا، انسان کا یہ ابتدائی مذہب (خود ساختہ) خود کا پیدا کردہ تھا۔ اس وقت انسان حوادث کے اسباب و علل سے بھی واقف نہ تھا۔ فطرت کے مظاہر ہرجگہ خدا کی شکل اختیارکرلیتے تھے۔‘‘(طلوعِ اسلام: اکتوبر۱۹۵۹ء ص۲۳) علم الانسان کے اس فلسفہ کی رو سے جب انسانی معاشرہ کا آغاز مظاہر فطرت سے مرعوبیت کی بنا پر اُنہیں خدا ماننے کے صورت میں ہوا، تو ظاہر ہے کہ اس فلسفہ کی رو سے ابتدائی انسانی زندگی میں نبوت و رسالت اور خدائی رشد و ہدایت کو ماننے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی جسے قرآن پیدائشِ آدم علیہ السلام کے ساتھ ہی آغاز پذیرقرار دیتا ہے اور ہمارے ’مفکر ِقرآن‘ چونکہ مغربی فلسفہ و تحقیق سے بُری طرح مرعوب و مغلوب ہیں او راہل مغرب کی فکری غلامی اور ذہنی اسیری میں مبتلا ہیں لہٰذا وہ کسی ایسی صورت حال کے قائل نہیں ہوسکتے جس میں انسانی معاشرہ کی ابتدا نور وحی اور ضیاے ہدایت میں ہوناقرار پائے، کیونکہ وحی و ہدایت کا وجود نبوت و رسالت کے وجود کو مستلزم ہے۔ ’مفکر ِقرآن‘کی طرف سے انکارِنبوتِ آدم کی تہہ میں یہی مغربی فلسفہ کارفرما ہے۔ وہ قرآن کے حقائق اور جدید تحقیقات میں کہیں تضاد و تصادم پائیں تو ان کارویہ یہ نہیں ہوتاکہ قرآنی حقائق کو حتمی، قطعی اور یقینی قرار دے کر ’جدیدتحقیقات‘ کو یہ کہہ کر ردّ کر دیں کہ ’’یہ تحقیقات ابھی خام ہیں، ممکن ہے مستقبل کے علمی انکشافات اُنہیں ردّ کرکے وہ چیز پیش کردیں جومطابق وحی ہو۔‘‘ بلکہ وہ یہ روش اختیار کیاکرتے ہیں کہ ’’قرآن کے اس مقام کی تشریح ممکن ہے کہ آئندہ کے علمی انکشافات اور آثارِ قدیمہ کے حقائق سے ہوجائے۔‘‘ اس طرح وہ ہمیشہ قرآن پر ان تحقیقات کو شرفِ تقدم بخشا کرتے تھے جواہل مغرب نے پیش کی ہوں، انکار نبوت آدم میں بھی یہاں یہی لم کارفرما ہے۔اس سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ’مفکر ِقرآن‘ کا راسخ ایمان قرآنِ کریم پرتھا؟ …یا تحقیقات مغرب پر؟‘‘