کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 176
کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلسلۂ رشدو ہدایت کا اِجرا و آغاز، رحمت ِخداوندی کا ویسا ہی ناگزیر تقاضا ہے جیسا انسان کی مادی ضروریات کو پورا کرنا۔ قرآن کریم کی رُو سے تخلیقِ بشر (آدم علیہ السلام ) کا مقصد ہی زمین میں خلافت کے فرائض کو انجام دینا ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسان اللہ کی مرضی اور ہدایت پر چلے۔اگر وہ خدائی رہنمائی سے انحراف کرتاہے تو نہ صرف یہ کہ خلافت کی بجائے بغاوت کی راہ اختیار کرتا ہے بلکہ وہ مستحق سزا بھی ٹھہرتا ہے اور یہ سزا دنیا میں ضیقِ قلب اور آخرت میں دخولِ جہنم کی صورت میں ہوگی، لیکن اگر وہ اپنے فرائض مرضاتِ الٰہیہ کے تابع انجام دیتا ہے تو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی انعامِ خداوندی کا مستحق قرار پاتاہے۔ آدم علیہ السلام کو زمین پر اُتارتے وقت یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دی تھیں : ﴿فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی﴾ (طہٰ :۱۲۳، ۱۲۴) ’’اب اگر میری طرف سے تمہیں ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا، وہ نہ بھٹکے گا، نہ بدبختی میں مبتلاہوگا اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا، تو اس کے لئے دنیامیں بھی تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز بھی ہم اسے اندھا کرکے اُٹھائیں گے۔‘‘ چنانچہ آدم علیہ السلام جو ابوالبشر اور اولیٰ الانسان تھے، اُسے امورِ خلافت کی انجام دہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے نورِ ہدایت سے نوازا اور مقامِ نبوت پرسرفراز فرمایا۔اس طرح انسانی معاشرہ کی ابتدا کفر و شرک او رالحاد و دہریت کی تاریکیوں میں ہونے کی بجائے توحید و رسالت اور رشد و ہدایت کی روشنی میں ہوئی۔ لیکن ’مفکر ِقرآن‘ کے قلب و ذہن اور حواس و مشاعر پر جو فلسفہ اپنی مضبوط گرفت قائم کرچکا ہے، اس کی رُو سے انسانی معاشرہ کی ابتدا، کفروشرک یاالحاد و دہریت سے ہوئی تھی او رپھررفتہ رفتہ یہ معاشرہ ارتقائی منازل طے کرتا ہوا توحید تک پہنچا۔ اس طرح بہت بعد میں کہیں جاکر سلسلۂ وحی و رسالت آغاز پذیر ہوا۔ ابتدائی انسانی معاشرہ کے متعلق پرویز صاحب فرماتے ہیں :