کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 174
کرنے کا حکم ملتا، وہ اپنے فرائض منصبی کو چھوڑ کر وہاں سے روانہ ہوگیا…‘‘
(برقِ طور: ص۲۸۹)
پھرایک اور مقام پر حضرت یونس علیہ السلام کی لغزش کی وضاحت بایں الفاظ کرتے ہیں :
’’خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم، اُس وقت ملاکرتاہے جب اس قوم کا حق و صداقت کو قبول کرنے کا اِمکان باقی نہ رہے۔ اس سے پہلے وہاں سے چلے جانا گویا اپنے فرائضِ منصبی کو چھوڑ دینا ہے۔ یہی یونس علیہ السلام کی اجتہادی غلطی تھی۔‘‘ (برقِ طور: ص۲۸۹، ۲۹۰)
اب غور فرمائیے کہ حضرت یونس علیہ السلام سے جوکچھ سرزد ہوا وہ ان کی اپنی طرف سے بغیر کسی ’ناصح‘کی پھسلاہٹ کے واقع ہوا، اور اُنہوں نے بطن ماہی میں لَا إِلٰہَ اِلَّا أنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ کہہ کر اعترافِ لغزش بھی کیا اورمعافی بھی مانگی۔
دوسری طرف، حضرت آدم علیہ السلام سے جو کچھ واقع ہوا، وہ ان کی آزادانہ مرضی کانتیجہ نہ تھا۔ ابلیس کے اس فریب کانتیجہ تھا جو اس نے ناصح و شفیق کا روپ دھارکر خدا کی قسمیں کھا کر دیا تھا۔اگر ابلیس اُنہیں یہ چکمہ نہ دیتا تو ان سے یہ امر سرزد ہی نہ ہوتا۔بخلاف ازیں حضرت یونس علیہ السلام سے جو کچھ وقوع پذیر ہوا، اس میں ابلیس یا کسی اور ’شفیق ناصح‘ کا عمل دخل تھا ہی نہیں، لیکن ہمارے ’مفکر ِقرآن‘ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’اس قسم کی معصیت کسی نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتا‘‘ یعنی کسی کی قسموں پراعتبار کرکے اسے شفیق ناصح جان کر اگر کسی سے لغزش ہوجائے تو یہ تو نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتا، لیکن اگر کسی نبی سے ایسے حکم خدا کی نافرمانی ہوجائے جو سب انبیا کے لئے ہجرت کے لئے ایک مستقل ضابطہ کی حیثیت رکھتا ہے تو ایسی نافرمانی ’’نبی کا شیوہ ہوسکتی ہے۔‘‘ قربان جائیے’مفکر قرآن‘ کی اس ’قرانی فہم و بصیرت ‘کے!
ثانیاً یہ کہ … پرویز صاحب کا یہ استدلال کہ … ’’ شیطان نے آدم پر غلبہ پالیاجبکہ نبی تو رہا ایک طرف وہ اللہ کے مخلص بندوں پر بھی حاوی نہیں ہوسکتا۔‘‘ از حد لغو استدلال ہے، جو ’مفکر ِقرآن‘ کے غلبۂ شیطان کی حقیقت سے بے بہرہ ہونے کا نتیجہ ہے۔