کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 173
غلبہ حاصل نہیں ہوگا۔‘‘ (تفسیر مطالب الفرقان: ج۲/ ص۶۳)
یہاں دو باتیں قابل غور ہیں :
اوّلاً یہ کہ … آدم علیہ السلام کی یہ معصیت تھی کس قسم کی؟ جس کے متعلق خود پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ ’’اس قسم کی معصیت، کسی نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتی۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ آدم علیہ السلام، نہ تو معصیت کوش تھے اور نہ ہی نافرمانی ربّ کا وہ کوئی ارادہ رکھتے تھے۔ بات صرف یہ ہوئی کہ بقول پرویز صاحب:
’’﴿وَقَاسَمَھُمَا إنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ﴾’’شیطان نے قسمیں کھا کر کہا: جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، اس میں میرا کوئی فائدہ نہیں۔ میں یہ سب کچھ تمہاری خیرخواہی کے لئے کررہا ہوں۔‘‘ (مفہوم القرآن: آیت ۷/۲۱)
اور حضرت آدم علیہ السلام جن کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ کوئی فرد اللہ کے نام کی قسم کھاکر کسی کودھوکہ دے سکتاہے، اپنی فطری سادگی کی بنا پراس شیطانی چکمہ کا شکار ہوگئے، پھر یہ دھوکہ دہی کی واردات بھی پہلی ہی تھی کہ اس سے قبل اُنہیں کبھی کسی فریب دہی اور دھوکہ بازی کی صورتِ حال کا سامنا نہ ہواتھا، بلکہ اس وقت تک آدم علیہ السلام اپنی فطرت کی سادگی اور پاکیزگی پرقائم تھے کہ جھوٹ، دھوکہ اور فریب جیسے رذائل سے ان کاتعارف ہی نہ ہوا تھا۔ اس لئے وہ شیطان کے فریب میں آگئے پھر کیا حضرات انبیا، عالم الغیب ہوتے ہیں کہ کسی بدباطن کے دھوکہ میں نہ آئیں ؟ کیا یہ واقعی اس قسم کی معصیت تھی جس سے انبیاے کرام بالاتر ہوا کرتے ہیں ؟ آخر وہ کسوٹی اور معیار تو بیان کیا جاتا جس کی رو سے انبیا کی معصیت اور غیر انبیا کی معصیت میں فرق کیا جاسکے۔
لغزشِ یونس او رپرویز
پھر از روے قرآن حضرت یونس علیہ السلام سے جو کچھ سرزد ہوا، کیا وہ آدم علیہ السلام کی لغزش سے بڑی لغزش نہ تھی، حالانکہ نبوتِ یونس علیہ السلام کے خود پرویز صاحب بھی قائل ہیں۔
حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق خودپرویز صاحب لکھتے ہیں :
’’… وہ قوم کی مخالفت سے سخت گھبرا گیا اور پیشتر اس کے کہ اسے خدا کی طرف سے ہجرت