کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 172
اہل مغرب دورِ حاضر کی غالب تہذیب کے علمبردار ہونے کی حیثیت سے اپنے مجوزہ نسخوں کو مجتہدانہ بصیرت سے برتتے ہیں اور حسب ِضرورت ان میں ترمیم بھی کرلیتے ہیں، لیکن یہاں کے مقلد تو ایسے کور چشم واقع ہوئے ہیں کہ اپنے وطن، ماحول، حالات، الغرض ہر چیز سے آنکھیں بند کرتے ہوئے مریض کی آخری ہچکی تک وہی نسخہ استعمال کرتے رہیں گے، اِلا یہ کہ خود وہیں سے ترمیم کی کوئی اطلاع آجائے۔ لیکن بعض ضدی قسم کے عطائیوں کا تو یہ حال ہے کہ جس غلط بات کو ایک مرتبہ تقلید ِیورپ میں اختیار کرلیا ہو، اُسے پھر دانتوں سے پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بعدازاں اب اگر وہاں کے مفکرین کی تحقیقات میں بھی وہ غلط قرار دی گئی ہو تو بھی یہاں کے مقلدین اس کی تردید و تکذیب پرآمادہ نہیں ہوتے۔ فما کانوا لیؤمنوا بما کذبوا من قبل !
اب یہاں دیکھئے، مفکرینِ مغرب مثلاً سرچارلس مارسٹن، پروفیسر لنگڈن اور پروفیسر شمڈٹ وغیرہ اپنی جدید تحقیقات کے باعث سابقہ نظریہ کو ترک کرکے اس تحقیق و انکشاف پرمتفق ہو رہے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کاآغاز کفر و شرک کی ظلمتوں اور جہالت و بے خبری کی تاریکیوں میں نہیں کیا بلکہ عقیدۂ توحید اورعلم وحی کی روشنی میں کیاتھا، لیکن ہمارے ہاں تجدد پسند دانشورابھی تک مغرب کی پرانی تحقیق پرجمے ہوئے ہیں جو صریحاً خلافِ قرآن ہے۔
دوسری مثال: انکارِ نبوت ِ آدم:
ملت ِاسلامیہ کاچودہ صدیوں پرمحیط لٹریچر اس حقیقت پر شاہد ہے کہ ہردور کے مفکرین و مجتہدین، مفسرین و محدثین، علماء و فقہا، مؤرخین و اصحابِ سیر نے حضرت آدم علیہ السلام کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ایک برگزیدہ پیغمبر اور نبی تسلیم کیا ہے، لیکن ہمارے’مفکر ِقرآن‘ اُنہیں نبی تسلیم نہیں کرتے اور اس کے لئے بایں الفاظ دلیل پیش کرتے ہیں :
’’سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قصۂ آدم میں کہا گیا ہے کہ خدانے آدم کو بالتصریح ایک حکم دیا اور آدم نے اس سے معصیت برتی، اس قسم کی معصیت کسی نبی کا شیوہ نہیں ہوسکتا… حضرات انبیا تو رہے ایک طرف، جیسا کہ بتایا جاچکا ہے، ابلیس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے کہ ﴿إنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰنٌ﴾ (۱۵/۴۲) ’’یقیناً میرے بندوں پرتجھے