کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 171
کرکے فتنے کھڑے کردیئے۔ہم نے فلسفۂ جدید کے اس باطل نظریہ کی تردید اپنی کتاب’حقیقت ِتوحید‘ میں تفصیل سے کی ہے۔‘‘
(تدبر قرآن، جلد۴ ص۳۵)
اور دوسری آیت کے تحت مولانا عبدالماجد دریابادی فرماتے ہیں :
’’آیت نے ایک بڑی گرہ کھول دی۔ فرنگی ’محققین‘ حسب ِمعمول مدتوں اس باب میں بھٹکتے رہے اور ان میں اکثر یہی کہے گئے کہ انسان کا ابتدائی مذہب شرک یاتعددِ آلہہ تھا۔ شروع شروع میں وہ ایک ایک چیز کو خدا سمجھتا تھا اور عقیدۂ توحید تک نسلی انسانی بہت سی ٹھوکریں کھانے کے بعد اور عقلی اور دماغی ارتقا کے بڑے طویل سفر کے بعد پہنچی ہے۔ قرآنِ مجیدنے اس خرافی نظریہ کوٹھکرا کر صاف اعلان کردیا کہ نسلِ انسانی آغازِ فطرت میں دینی حیثیت سے ایک اور واحد تھی۔ اس میں ’مذہب‘ و ’اَدیان‘ کے یہ تفرقے کچھ بھی نہ تھے۔امت ِواحدہ میں جس وحدت کا ذکر ہے، ظاہر ہے کہ اس سے دینی و اعتقادی وحدت ہی مراد ہے:
کانوا علی شریعۃ من الحق ( ابن جریر، عن ابن عباس)
إنھم کانوا علی دین واحد وھو الإیمان والحق ھذا قول أکثر المحققین (تفسیر کبیر)
صدیوں کی اُلٹ پھیر اور قیل و قال کے بعد اب آخری فیصلہ بڑے بڑے ماہرین اَثریات، انسانیات و اجتماعیات (سرچارلس مارسٹن، پروفیسر لنگڈن اور پروفیسر شمڈٹ) کا یہی ہے کہ انسان کا اوّلین دین، دینِ توحیدتھا۔ ‘‘ (تفسیرماجدی: صفحہ ۸۳، حاشیہ ۷۷۲)
’مفکر ِقرآن‘ کی اندھی تقلیدمغرب
لیجئے، اب تو مغربی مفکرین بھی اپنی تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں کہ انسان کا اوّلین دین، دینِ توحید تھا۔لیکن ہمارے ’مفکر ِقرآن‘ ماڈرن ہوکر بھی ابھی تک اس مسئلہ میں ’قدامت پرستی‘ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ دراصل ’مفکر ِقرآن‘ صاحب یہاں کے اس جدید طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے ذہنوں پر مغرب کی اندھی پیروی کے باعث ایساجمود و تعطل طاری ہوگیا ہے کہ اگروہاں سے کوئی غلط بات بھی صادر ہوجائے تو اُسے ’وحی‘ قرار دے کر ہاتھوں ہاتھ لے لیاجاتا ہے اورمسائلِ حیات کے حل کے لئے پوری مقلدانہ سعادت مندی کے ساتھ اُن ہی نسخوں کو آزماڈالاجاتا ہے جو دراصل یہاں کے لئے بنائے ہی نہیں گئے تھے۔