کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 170
کا تذکرہ ضروری سمجھا ہے۔ میں جب ساحلِ عمر کے ریگ ِرواں پر ان پچاس سالہ نقوش کو مرتسم دیکھتا ہوں تو حیرت میں جو متن اپنے سامنے رکھا تھا، اس میں مجھے اس قدر کامیابی حاصل ہوئی ہے، اس سے میرا سرنیاز اس بارگاہِ عتبۂ عالیہ پر بے ساختہ جھک جاتا ہے جس کی عطا کردہ راہنمائی کے بغیر اس کامیابی کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں ہوسکتا تھا اورحیرت یہ کہ تمام دنیاوی علائق کے باوجود (جن میں کم وبیش تیس سال ملازمت کے بھی شامل ہیں ) میں نے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں تن تنہا یہ طویل مسافت کیسے طے کرلی۔ ‘‘ (طلوعِ اسلام: جولائی ۱۹۷۸ء، ص۶)
بلاشبہ ’مفکر ِقرآن‘ نے قرآنی مطالعہ و تحقیق میں پچاس سال صرف کرڈالے، لیکن اس کانتیجہ کیا نکلا؟ یہ کہ وہ لغت ہائے حجازی کے قارون تو بن گئے، لیکن قرآن کی روح اُن پر بے نقاب نہ ہوسکی، کیوں ؟ صرف اس لئے کہ ان کی آنکھوں پرایک مخصوص رنگ کی عینک چڑھی ہوئی تھی، اوردورانِ مطالعہ انہیں ہر چیز اُسی عینک ہی کے رنگ میں دکھائی دیتی رہی اور قرآنِ کریم کی وہ واضح آیات جو فکر ِمغرب کی تردید کرتے ہوئے یہ اعلان کرتی ہیں کہ کاروانِ انسانیت نے اپنا سفر، کفر وشرک اور جہالت و بے علمی کی تاریکیوں میں نہیں بلکہ عقیدۂ توحید اور علم وحی کی روشنی میں شروع کیاتھا، اُن کی نگاہوں سے اوجھل ہی رہیں۔صرف دو آیات ملاحظہ فرمائیے :
﴿وَمَا کَانَ النَّاسُ اِلَّااُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا ﴾ (یونس:۱۹)
’’اور لوگ تو ایک ہی اُمت تھے پھر اُنہوں نے اختلاف کیا۔‘‘
﴿کَان النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ ﷲُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ﴾
’’(ابتدا میں )سب کچھ لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ (پھریہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو مبشر اورمنذر تھے۔‘‘ (البقرۃ:۲۱۳)
یہ دونوں آیات فکر ِپرویز کی تردیدکرتی ہیں جو اُنہوں نے ’مفکر ِقرآن‘ کی حیثیت سے مغرب سے اپنی ذہنی مرعوبیت کے باعث اپنارکھاتھا۔ پہلی آیت کے تحت مولاناامین احسن اصلاحی لکھتے ہیں :
’’ضمناً اس سے جدید فلسفیوں کے اس نظریہ کی بھی تردید ہوگئی کہ انسان نے دین کاآغاز شرک سے کیا، پھر درجہ بدرجہ اِرتقا کرتے ہوئے توحید تک پہنچا۔ قرآن اس کے برعکس یہ کہتا ہے کہ خدا نے شروع ہی سے انسان کو توحیدکی تعلیم دی، لیکن گمراہوں نے اس میں اختلاف پیدا