کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 169
مشاہدہ سے اس پر ایک منعم حقیقی کی شکرگزاری کا جذبہ اور احساس طاری ہوا اور پھر اس جذبہ کی تحریک سے وہ اُس کی بندگی کی طرف مائل ہوا، گویا دین کاآغاز توحید سے ہوا، اس میں کجی پیدا کرکے شرک کی راہ انسان نے بعد میں اختیار کی۔‘‘ (فلسفے کے بنیادی مسائل: ص۳۵) ہمارے ’مفکر قرآن‘ چونکہ ذہنا ًاور کلیا ً فلسفہ سے مرعوب و مسحور تھے۔ اس لئے وہ مقہور و مجبور تھے کہ اس سوال کے جواب میں کہ بنی نوع انسان میں خدا کاتصور کیسے پیداہوا؟ وہی فلسفہ اپنائیں جس کی روشنی میں اہل مغرب کے ہاں انسان کاسفر حیات(توحید کی روشنی میں نہیں بلکہ)شرک و کفر کی تاریکیوں میں ہواتھا او رپھر اسی فلسفۂ باطلہ کی لاج رکھتے ہوئے، اُنہوں نے اپنی فکری مرعوبیت اورذ ہنی غلامی کاکھلا کھلا ثبوت فراہم کرڈالا ہے۔ یہ طرزِعمل خود اس حقیقت کو بے نقاب کردیتا ہے کہ ’مفکر ِقرآن‘ کس طرح قرآن کانام لے کر، فکر ِفرنگ اور فلسفۂ مغرب کی پیروی کیا کرتے تھے۔ عمر بھر کے مطالعۂ قرآن کے بعد بھی قرآن سے بے خبری ’مفکر ِقرآن‘ اپنی ستائش آپ کرتے ہوئے اکثر اپنی عمر بھر کی قرآنی تحقیق و ریسرچ کاڈھنڈورا پیٹاکرتے تھے، مثلاً ’’میں، اے برادرانِ گرامی قدر! قرآنِ کریم کاطالب علم ہوں، میں نے اپنی عمر کابیشتر حصہ اس کتابِ عظیم کی روشنی میں اپنی بصیرت کے مطابق اسلام کے بنیادی تصورات کامفہوم متعین کرنے میں صرف کیا ہے اورمیری اس کوشش کاماحصل، میری تصانیف کے اَوراق میں محفوظ ہے۔‘‘ (طلوعِ اسلام:جنوری ۱۹۷۳ء، ص۲۷) ’’مہ و سال کے شمارسے میں ۹جولائی ۱۹۷۸ء کو اپنی عمر رواں کے پچھتّر سال پورے کررہاہوں۔ یہ کوئی ایسا اہم واقعہ نہیں تھا جس کا خصوصیت کے ساتھ طلوعِ اسلام کے صفحات میں ذکر کیا جاتا۔ قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ میں اپنی موجودہ قرآنی فکر اور اس کی نشرواشاعت کے سلسلہ میں پچاس سال پورے کررہاہوں۔ عام اصطلاح میں اسے ’گولڈن جوبلی‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ میرے نزدیک یہ پچاس سالہ ’جوبلی‘ دنیا کے ہر متاع سے زیادہ گراں مہا اور اس کی یاد، سب سے زیادہ وجہ ِنشاطِ روح ہے اور نشاط و انبساط کے یہی وہ احساسات ہیں جن میں اپنے بے شمار دیدہ ونادیدہ اَحباب و رفقا اور متفقین کو شریک کرنے کے لئے میں نے اس