کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 168
کارواں کو توحید و اسلام کی روشنی دکھائی دی۔ یہ سب کچھ دراصل اسلامی فلسفۂ تاریخ سے قطعی جہالت و ناواقفیت کانتیجہ ہے اور ساتھ ہی فلسفۂ مغرب سے شدید فکری مغلوبیت اور ذہنی مرعوبیت کا بھی۔ بیدار مغز مسلم مفکرین نے جنہیں تہذیب ِمغرب کی چمک دمک متاثر نہ کرسکی، اپنی جاندار تنقید سے مغربی فلسفہ کے تاروپود کو بکھیرکر رکھ دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے درج ذیل اقتباس… مولاناامین احسن اصلاحی لکھتے ہیں : ’’یہ بات کہ مذہب کا آغاز اَن دیکھی قوتوں کے خوف سے ہوا ہے او ریہی جذبہ انسان کے جذبات میں اوّلین اور قدیم جذبہ ہے، بالکل بے سروپا ہے۔انسانوں میں جو خوف پایا جاتاہے اس کی اصل حقیقت، زوالِ نعمت کااندیشہ ہے۔خود کاتجزیہ کیجئے تو صاف نظر آئے گا کہ خوف نام ہے اس چیز کاکہ آپ کو کسی ایسی چیز کے چھن جانے یااُس سے محروم ہوجانے کا اندیشہ یا خطرہ پیداہوگیا ہے جو آپ کو حاصل بھی ہے اور عزیز بھی۔مثلاً انسان کو اپنی زندگی عزیز ہے، زندگی کا سروسامان عزیز ہے، اپنے بیوی بچے عزیز ہیں۔ اس لئے وہ ان چیزوں کی طرف سے اندیشہ میں ہوتا ہے کہ کہیں یہ چیزیں چھن نہ جائیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر خوف سے پہلے کسی نعمت کاشعور بھی لازمی ہو او رپھر اس کی شکرگزاری کا جذبہ پیداہونا بھی ناگزیر ہوا۔ اس نظریہ کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جو چیزیں انسان کے اندر خوف کی حالت پیدا کرتی ہیں، وہ دنیاکے عام واقعات میں سے نہیں۔ زلزلے روز نہیں آیاکرتے، آتش فشاں پہاڑ روز نہیں پھٹتے، بجلیاں روز نہیں کڑکتیں، وبائیں روز نہیں پھوٹتیں اور طوفان کا شور بھی کوئی روزمرہ کاواقعہ نہیں۔ اس کے برعکس تارے روز چمکتے ہیں، سورج روز چمکتا ہے، چاند روز چمکتا ہے اور اپنی روپہلی چاندنی کی چادر روز دشت و جبل میں بچھاتا ہے۔ آسمان کی نیلگونی ہر لمحہ باصرہ نوازی کرتی ہے۔ ابر ِکرم کی تردستیاں اور درختوں کی ثمر باریاں ہرموسم میں موجود رہتی ہیں۔ پھر کس قدر حریت کی بات ہے کہ مظاہر فطرت کی گاہ گاہ کی گھرکیاں اور دھمکیاں تو انسان کو اس درجہ مرعوب کردیں کہ وہ ان کی پوجا کرنے لگ جائے، لیکن منعم غیب کی ساری فیاضیاں بالکل بے اثر ہوکر رہ جائیں اور انسان میں شکر و سپاس کا کوئی ولولہ پیدانہ کریں۔ اس لئے انسان کے مشاہدۂ کائنات اور مشاہدۂ النفس کی فطری راہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ نعمتوں اور رحمتوں کے