کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 167
کر پیش کیا ہے اور ہمارے’مفکر ِقرآن‘ نے اپنی فکری اسیری اور ذہنی غلامی کی بنا پر اسے من وعن قبول کرلیاہے حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ انسان نے اپنے سفر حیات کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں عقیدۂ توحیدکی روشنی میں کی تھی نہ کہ کفر و شرک کی ظلمت میں۔ انسان کو پیداکرنے کے بعد اس کی رہنمائی کرنا خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھاہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں بکثرت مقامات پرخداے قدوس کی اس ذمہ داری کو بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً : ﴿وَعَلَی ﷲِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْھَاجَائِرٌ﴾ (النحل:۹) ’’اور راہِ راست دکھانا اللہ ہی کے ذمہ ہے جب کہ ٹیڑھے راستے میں موجود ہیں۔‘‘ ﴿إنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی﴾ (اللیل:۱۲) ’’اور ہم پر ہی یہ لازم ہے کہ ہم رہنمائی کریں۔‘‘ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلا انسان جو پیدا کیا تو اسے علم وحی سے نوازا۔ مرتبۂ نبوت عطافرمایاتاکہ وہ علم کی روشنی میں، نہ کہ جہالت و بے خبری کی تاریکی میں، اپنے سفر حیات کاآغاز کرے۔ تنقید بر ’دلائل پرویز‘ اپنے ’مفکر قرآن‘ کے وہ دلائل جو اُنہوں نے’خارجی کائنات‘کے متعلق انسان کے اوّلین ردّعمل کے ضمن میں پیش کئے ہیں تو وہ دراصل ’دلائل‘ نہیں بلکہ دانشورانِ مغرب کی چچوری ہوئی وہ ہڈیاں ہیں جنہیں منکرین حدیث اپنے منہ سے اُگل رہے ہیں اور حیرت بالاے حیرت یہ امر ہے کہ تہذیب ِمغرب کے سحر میں گرفتار یہ غلام فطرت لوگ اپنی اسلامی حس اور تنقیدی قوت کو سرے سے ہی کھو چکے ہیں یہاں تک کہ مغرب سے جو کچھ بھی آتا ہے، اُسے وحی سمجھ کر من وعن قبول کرلیا جاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال اسی زیر بحث معاملہ میں دیکھی جاسکتی ہے کہ انسانی دنیامیں خدا اورمذہب کے تصور کی پیدائش میں کس طرح فلاسفۂ مغرب کی اندھی تقلید کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو محض خوف کی ’پیدوار‘ قرار دیا گیا ہے۔نیز یہ کہ کاروانِ انسانیت کے سفر کاآغاز علم وحی کی روشنی میں نہیں بلکہ جہل و بے علمی کی تاریکی میں ہواتھا اورنہیں معلوم کہ سفر ارتقا کی کتنی منزلیں طے کر ڈالنے کے بعد اور مدتِ دراز کی کشتی ٹھوکریں کھانے کے بعد اس