کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 166
اس سوال کاواضح اور اطمینان بخش جواب ازروے قرآن یہ ہے کہ ایسا وحی ٔ خداوندی کی بنا پرہوا۔ لیکن ہمارے ’مفکر ِقرآن‘ کی عقل و دانش اور ’قرآنی بصیرت‘ اس کا کوئی او رہی جواب فراہم کرتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے یہ جواب:
’’جب انسانی شعور نے آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو عجیب دنیامیں پایا۔ سرپر آتش باری کرنے والا ایک عظیم اورمہیب گولہ، چاروں طرف بڑے بڑے پہاڑ، ادھر اُدھر ساحل ناآشنا سمندر اور اس کی خوفناک تلاطم انگیزیاں، یہاں وہاں کف بردہاں اور سیلاب درآغوش دریاؤں کی خوف سامانیاں، میلوں تک ڈراؤنے جنگل اور ان میں بڑے بڑے خطرناک درندے اور اژدہے، کبھی بادل کی لرزہ خیز گرج، کبھی زلزلوں کی تباہ کاریوں کاہجوم، شش جہات میں اس قسم کی خوفناک بلاؤں کا ہجوم و اژدہام اور ان کے اندر گھرا ہوابے یارو مددگار اور بے سروسامان تنہا ابن آدم۔آپ سوچئے کہ ان حالات میں خارجی کائنات کے متعلق اس کاردّعمل اس کے سوا کیاہوسکتا تھا کہ جو بلا سامنے آئے، یہ گڑگڑانا شروع کردے۔جہاں کوئی خطرہ آنکھ دکھائے یہ اس کے سامنے سرنگوں ہوجائے۔اس طرح فطرت کی مختلف قوتیں اس کا ’اِلٰہ‘ او ریہ اس کا پرستار بن گیا۔ چاند، سورج، ستارے، گرج، کڑک، بارش، آندھی، آگ، دریا، سانپ، شیر، حتیٰ کہ وبائی امراض، سب دیوی دیوتا تصور کرلئے گئے اور ان کی بارگاہ میں نذونیاز، منت و سماجت اور مدح و ستائش سے اُنہیں خوش رکھنے اور راضی رکھنے کی تدابیر اختیار کی جانے لگیں۔ یہ تھا(اُس ماحول میں ) انسان کااوّلین ردّعمل۔ خارجی کائنات کے متعلق رفتہ رفتہ اسی ردّعمل نے مذہب کی شکل اختیار کرلی اور آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی عقیدہ یا تصور مذہب کی شکل اختیار کرلے تو حالات کتنے ہی کیوں نہ بدل جائیں اس میں تبدیلی نہیں آیا کرتی، چنانچہ دنیا کے بیشتر مذاہب کائنات کے متعلق انسان کے اس اوّلین ردّعمل کے مظاہر ہیں۔ ‘‘ (’اسلام کیا ہے؟‘ ص ۱۹۴)
’مفکرقرآن‘ کا قطعی خلافِ قرآن فلسفہ
’مفکر ِقرآن‘کایہ اقتباس اس امر کو واضح کردیتاہے کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا عقیدہ توحید سے نہیں بلکہ نظریۂ شرک سے کی تھی۔ یہ نظریہ دراصل دین بیزار، اسلام دشمن، توحید مخالف اور دہریت پسندقوموں کافلسفہ ہے جسے اُنہوں نے ’خدا سے بیزارعقل‘ کی کسوٹی پرپرکھ