کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 165
تم نہیں دیکھ سکتے کہ میں پاکستان کے وسیع وعریض خطہ پر نگاہ ڈالتا ہوں تو عام طور پر یہ دیکھتا ہوں کہ نہ کہیں لذتِ کردار، نہ افکارِ عمیق[1] اور ایک ٹھنڈی سانس سے یہ کہہ کرخاموش ہوجاتا ہوں کہ آہ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق (’سلیم کے نام‘: ج۱/ ص۵۱) اطاعت ِ قرآن کی بجائے تقلید ِ مغرب چنانچہ ہمارے’مفکرقرآن‘ صاحب جو اُمت ِمسلمہ کو کیفیت ِجمود اور حالت ِتقلید میں دیکھ کر ٹھنڈی سانس سے یہ کہہ کرخاموش ہوجایا کرتے تھے کہ ’’آہ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق‘‘، وہ تفسیر قرآن کی کوہ کنی میں ’’اپنے دیدۂ تر کی بے خوابیوں کو‘‘، ’’اپنے پوشیدہ دل کی بے تابیوں ‘‘ کو، ’’اپنے نالۂ نیم شب کے نیاز‘‘ کو اور اپنی ’’خلوت و انجمن کے گداز‘‘ کو وقف ِراہِ تقلید مغرب کئے ہوئے تھے۔ کیونکہ مغرب میں ’زوالِ تحقیق‘ کی بجائے ’عروجِ تقلید‘ موجود ہے۔ وہ قرآنی حقائق کی بجائے، تحقیقاتِ مغرب کو حتمی، قطعی اور یقینی قراردیا کرتے تھے۔ وہ ’ابہاماتِ قرآن‘ کو تہذیب ِغالب کے انکشافات و اکتشافات کی روشنی میں کھولا کرتے تھے، جہاں کہیں وہ قرآنی حقائق اور مغربی تحقیقات میں ٹکراؤ ہوتاتھا، وہ وہاں تحقیقاتِ مغرب کو شرفِ تقدم عطا کرکے قرآنِ کریم کو اُن کے مطابق ڈھال دینے پر جت جایا کرتے تھے تاکہ خدا کی کتاب ’جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ‘ ہوجائے اور کوئی نہ کہہ سکے کہ از منۂ مظلمہ میں نازل ہونے والی یہ کتاب آج کے ’روشن دور‘ کی ’علم و بصیرت‘ کی کسوٹی پر پوری نہیں اُترتی۔ اس امر کے اثبات میں اگرچہ متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، لیکن مقالے کی تنگ دامنی کے باعث چند مثالوں پراکتفا کیاجاتاہے : پہلی مثال: انسانوں میں تصورِ خدا کیسے پیداہوا؟ بنی نوع انسان میں خدا کا تصور، عقیدۂ اُلوہیت او رایمان باللہ کا نظریہ کیسے پیدا ہوا؟