کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 164
۱۰۔ ہمارے سامنے ہدایت و ضلالت کامعیار قرآنِ مجیدہے۔ (طلوعِ اسلام: جنوری ۱۹۵۹ء، ص۳۱) تِلک عشرۃ کاملۃ !! ’مفکر ِقرآن‘ کے وسیع لٹریچر میں سے مُشتے نمونہ از خروارے کے طور پر یہ وہ چند اقتباسات ہیں جن میں فقط قرآن ہی کے واحد معیار، اسی کے تنہا سند ہونے اور اسی کے پیمانۂ ردّ و قبول اور اسی کے کسوٹی ٔ حق و باطل ہونے اور اسی کے فرقانِ صحت و سقم ہونے اور اسی کے میزانِ ہدایت و ضلالت ہونے کے خوش کن دعاوی مرقوم ہیں۔ ان ’خوش کن دعاوی‘کی حیثیت دراصل کسی بد دیانت اور فریب کار تاجر کی دکان میں موجود اُن اصلی اورکھری چند اشیا کی سی ہے جنہیں وہ اپنے جعلی اور کھوٹے سروسامان کی بہتات میں مصلحتاً رکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ اعلانات ’مفکر ِقرآن‘ کے فی الواقع ہاتھی کے وہ دانت ہیں جو صرف دکھانے ہی کے کام آتے ہیں۔ دنیا میں ہر شخص اچھے سے اچھا خیال، بہتر سے بہتر نظریہ، خوب سے خوب تر فکر، مستحسن سے مستحسن تر فلسفہ ہر وقت پیش کرسکتا ہے، لیکن زمانے کا بے رحم صراف، ایسے کسی خیال، نظریے، فکر یافلسفے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا جو عمل کی کسوٹی پر پورا نہیں اُترتا۔ ہمارے ’مفکر قرآن‘ کے یہ سب خوش کن دعاوی اس وقت بے وقعت اور بے وزن ہوکر رہ جاتے ہیں جب وہ مسائل حیات کے حل کے لئے قرآنِ کریم کی بجائے مغربی تحقیقات کی طرف یہ کہتے ہوئے رجوع فرماتے ہیں کہ اُمت ِمسلمہ تو تقلیدی جمود کا شکار ہے جسے دیکھ کر اُن جیسے ’نابغہ عصر‘ اور ’مجتہد ِمطلق‘ کو بڑی کوفت ہوتی ہے اور پھر یہی کوفت ان الفاظ کا روپ دھار لیتی ہے: ’’سلیم ! تمہیں اپنا سینہ چیر کر درد و کرب کی ان تلاطم خیزیوں کو کس طرح دکھاؤں جنہوں نے مجھ پر راتوں کی نیند اور دن کا چین حرام کررکھاہے۔ سلیم ! میرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں مرے نالہ نیم شب کا نیاز مری خلوت و انجمن کا گداز