کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 163
ایسی کیوں نہ پیش کردی جائیں، جن کے راویوں میں جبرائیل و میکائیل تک کا بھی نام شامل کردیاگیا ہو۔ (طلوعِ اسلام: نومبر۱۹۵۳ء، ص۳۷) ۳۔ صحیح اور غلط کے پرکھنے کا ایک ہی معیار ہے یعنی یہ کہ اس کے متعلق قرآن کا کیا فیصلہ ہے۔ جیسے قرآن صحیح قرار دے، وہ صحیح ہے خواہ اُسے ایک آدمی بھی صحیح نہ مانتا ہو، اور جسے وہ غلط قرار دے، وہ غلط ہے خواہ اُسے ساری دنیا مسلمہ کی حیثیت سے جانتی ہو۔ (طلوعِ اسلام، فروری ۱۹۵۴ء، ص۲۵) ۴۔ قانون کے صحیح ہونے کی سند نہ زید ہے نہ بکر، نہ اسلاف ہیں نہ اخلاف۔ اس کی سند ہے اللہ کی کتاب جو اس کے مطابق ہے وہ صحیح ہے۔ جو اس کے خلاف ہے وہ غلط ہے خواہ اسے کسی کی بدنیتی یانادانی، کسی بڑی سے بڑی ہستی کی طرف بھی منسوب کیوں نہ کردے۔ (طلوعِ اسلام: مارچ ۱۹۵۹ء، ص۹) ۵۔ سوال یہ ہے کہ کسی چیز کے ’درحقیقت صحیح‘ ہونے کا معیار کیاہے؟ قرآن کی رُو سے وہ معیار یہ ہے کہ جو بات کتابِ خداوندی کے مطابق ہو، وہ صحیح ہے اور جو اس کے خلاف ہو وہ غلط ہے۔ (طلوعِ اسلام: ستمبر۱۹۵۹ء، ص۶) ۶۔ کسی بات کے لئے اسلامی یا غیراسلامی ہونے کے لئے کسی انسان کی سند کافی نہیں ہوسکتی۔ اس کے لئے سند صرف خدا کی کتاب کی ہونی چاہئے۔ (طلوعِ اسلام: جنوری ۱۹۶۰ء، ص۵۸) ۷۔ ہمارے پاس خدا کی کتاب موجود ہے، جس کی روشنی میں ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ جو کچھ کسی اور انسان نے کہا ہے (خواہ وہ اس وقت موجود ہے یا ہم سے پہلے گزر چکا ہے) اسے پرکھے۔اگر وہ اس کتاب کے مطابق ہے تو اسے صحیح تسلیم کرلیاجائے، اگر اس کے خلاف ہے تو مسترد کردیاجائے۔ (طلوعِ اسلام: جون ۱۹۶۷ء ص۶۲) ۸۔ طلوعِ اسلام کا مسلک یہ ہے کہ حق اور باطل کا معیار قرآن ہے۔ہر وہ بات جو قرآن کے مطابق ہے، صحیح ہے۔ (طلوعِ اسلام، فروری ۱۹۶۸ء، ص۶۰) ۹۔ دین کے معاملہ میں حق و باطل اور صحیح و غلط کا معیار قرآنِ کریم ہے۔ (شاہکارِ رسالت، گذرگاہ خیال: ص۳۹)