کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 162
کوئی ایسا صاحب ِعمل جو اس بے راہ ہجوم کا ہاتھ پکڑ کر اُسے راستہ پرلگا دے۔ سارے ملک میں لے دے کے، ایک طلوعِ اسلام کی آواز تھی (اور ہے) جو صحرا میں کھوئے ہوئے اس کارواں کے منتشر افراد کے لئے بانگ ِدرا تھی۔‘‘ (طلوع اسلام: اکتوبر۱۹۷۱ء، ص۵۱) چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ’طلوعِ اسلام‘ نے بھی اپنے قارئین کو اس فریب ِیقین میں مبتلا کیا کہ ’’آؤ لوگو! یہیں نورِ خدا پاؤ گے!‘‘ ’’اس وقت، ملک جن ہنگامی حالات سے دوچار ہے، ان میں قوم کوقرآنی راہنمائی کی اشد ضرورت ہے او ریہ راہنمائی اُسے طلوعِ اسلام کے علاوہ اور کہیں سے نہیں مل رہی ہے۔ ‘‘ (طلوعِ اسلام: جنوری ۱۹۷۲ء، ص۴۵) راہنمائی قرآن کی یا تہذیب ِمغرب کی؟ حالانکہ جس چیز کو ’مفکر ِقرآن‘ اور طلوعِ اسلام، قرآنی راہنمائی قرار دیتے ہیں وہ قطعاً اور ہرگز ہرگز قرآنی راہنمائی نہیں ہے، بلکہ وہ صرف مارکسی اشتراکیت ہے جس پر قرآنی ٹھپہ لگا کرمغربی معاشرت کے عادات و اطوار کے ساتھ اُسی طرح ملاکر پیش کیاگیاہے، جس طرح اکبر بادشاہ نے مذاہب ِشتیّٰ کے بے جوڑ عناصر کوملا کر’دین الٰہی‘ بناکر پیش کیاتھا۔ ایمان بالقرآن کے دعاوی پرویز جہاں تک ’مفکر قرآن‘ کے ایمان بالقرآن کا تعلق ہے تو اس کی اصل حقیقت ذلک قولھم بأفواھھم سے زیادہ نہیں ہے، وہ اگرچہ اپنے ایمان بالقرآن کاڈھنڈورا پیٹا کرتے تھے اور قرآنِ کریم ہی کو واحداتھارٹی اور سند قرار دیا کرتے تھے، لیکن عملاً اُن کے ہاں سند و معیار علماے مغرب کی تحقیقات ہی تھیں۔ نظریاتی اور قولی و قلمی حیثیت سے ایمان بالقرآن کی بابت اُن کے بلند بانگ دعاوی کی ایک جھلک مندرجہ ذیل اقتباسات میں ملاحظہ فرمائیے: ۱۔ صحت و سقم کامعیار میزانِ قرآنی ہے نہ میرا دعویٰ، نہ غیر کی تردید۔ اس لئے اگر کوئی میری گذارشات کو باطل ٹھہراتا ہے تو اُسے کہو کہ اس کے لئے قرآن کی بارگاہ سے سند لائے۔ (طلوعِ اسلام: مئی۱۹۵۲ء، ص۴۸) ۲۔ ہمارے نزدیک دین کامعیار فقط کتاب اللہ ہے، خواہ اس کی تائید میں ہزار حدیثیں بھی