کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 161
3. اس وقت ساری دنیامیں قرآنِ خالص کی آواز صرف آپ کی اس ننھی سی جماعت کی طرف سے بلند ہورہی ہے۔ (طلوعِ اسلام: دسمبر۱۹۶۴ء، ص۸۷) 4. صدرِاوّل کے بعد ہماری تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ قرآنی نظام کی آواز بلند ہورہی ہے۔ (طلوعِ اسلام: جون ۱۹۶۶ء، ص۷۸) 5. پورے عالم اسلام میں ادارہ طلوعِ اسلام ہی وہ واحد ادارہ ہے جس نے چاروں طرف سے چھائی ہوئی مایوسیوں میں مسلمانوں کو پکارا اور بتایاکہ ان کی ذلت ورسوائی کاواحد سبب یہ ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی کتاب اور اس عطا فرمودہ روشنی سے دور جا پڑے ہیں۔ مسلمانوں کی باز آفرینی کے لئے یہی ایک صورت ہوسکتی ہے کہ جس طرح خدا کی دی ہوئی روشنی نے اس قوم کو آج سے چودہ سو سال پہلے ترقی اور عروج کے بامِ ثریاتک پہنچا دیاتھا۔ یہ قوم پھر اُسی مینارۂ نور سے کسب ِضیا سے کرے اوراپنی زندگی کو اسی قالب میں ڈھال لے۔ادارہ طلوع اسلام قریب تیس سال سے قرآن کریم کی آواز کو بلند کررہاہے۔ (طلوعِ اسلام: جولائی ۱۹۶۹ء، ص۷۳) چنانچہ ایک مقام پر ’مفکر ِقرآن‘ اپنے منہ آپ میاں مٹھو بنتے ہوئے، اپنے حلقہ احباب کو یہ باورکرواتے ہیں کہ 6. اس وقت ملک میں خالص فکری تحریک صرف آپ کی ہے، باقی سب وقتی ہنگامہ آرائیاں ہیں، جن میں اسلام کا نام لیاجاتاہے، جیسے خطوں کی پیشانی پر ۷۸۶ لکھ دیا جاتا ہے، لیکن نفس مضمون سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ (طلوعِ اسلام: دسمبر۱۹۶۷ء، ص۵۲) 7. اس وقت ساری دنیا میں صرف آپ کی یہ مختصر سی جماعت ہے، جوپیغام خداوندی کی مئے بے درد و صاف کو شفاف اوربے رنگ پیمانوں میں پیش کررہی ہے۔ (طلوع اسلام، نومبر۱۹۶۹ء، ص۶۸) ایک اور مقام پر خود نمائی اور خود ستائی کے ساتویں آسمان پرمحو ِپروازکرتے ہوئے ’مفکر قرآن‘ یوں تسلی آمیز انداز میں فرماتے ہیں : ’’ہمارے ہاں، نہ کوئی ایسا صاحب ِفکر نکلا جو یہ سوچ سکے کہ قوم کی یہ حالت کیوں ہوگئی اورنہ