کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 160
ایک اورموقع پر اُسی اہانت آمیز لب و لہجہ میں جو علما کے خلاف ان کامستقل وطیرہ تھا، یہ فرماتے ہیں :
’’مُلّا کے پاس نہ علم ہوتاہے، نہ بصیرت، نہ دلائل ہوتے ہیں، نہ براہین۔‘‘ (طلوع اسلام: ۵ فروری ۱۹۵۵ء، ص۴)
اورمولانامودودی رحمۃ اللہ علیہ جن کی گھٹیا مخالفت میں ’مفکر ِقرآن‘ صاحب مرتے دم تک پرویزی حیلے اختیارکرتے رہے ہیں، یہ فتویٰ ان کے متعلق داغتے ہیں۔
ایک اور مقام پر مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف یہ فتویٰ بھی رسید کیا گیاہے :
’’ہم مودودی کو نہ دین کا عالم مانتے ہیں، نہ کوئی مفکر۔‘‘ (طلوع اسلام: جون ۱۹۵۳ء، ص۶)
چنانچہ ’مفکر ِقرآن‘ صاحب اپنے عقیدت مندوں کے جھرمٹ میں علماء کرام پر ’قدامت پرستی‘ کالیبل لگاکر اپنے متعلق تعلّی آمیز خود ستائی کا اظہار بایں الفاظ کیا کرتے تھے :
’’جو کچھ میں قرآن سے پیش کرتاہوں، اس کی تردید کے لئے چونکہ ہمارے قدامت پرست طبقہ کے پاس دلائل و براہین نہیں ہوتیں، اس لئے وہ خود بھی مشتعل ہوتاہے اور عوام کو بھی مشتعل کرتاہے۔‘‘ (طلوعِ اسلام: اگست ۱۹۷۳ء، ص۳۶)
أعلم الناس بالقرآن کی پندار افزائی
’مفکر ِقرآن‘ صاحب خود أعلم الناس بالقرآن کے پندار میں مبتلاہوکر یہی پندار اپنے نیاز مندوں میں بھی پیدا کیا کرتے تھے اور اُنہیں اس زعم میں مبتلا کیا کرتے تھے کہ تیرہ چودہ صدیوں بعد جو قرآنی آواز طلوعِ اسلام کے ذریعہ بلند ہورہی ہے، آپ لوگ ہی اس کے واحد امین ہیں، باقی ساری دنیا اس آواز کا گلاگھونٹتی چلی آرہی ہے۔
1. تیرہ سوسال کے بعد پھرسے خالص قرآن کی آواز طلوعِ اسلام کی وساطت سے بلند ہونی شروع ہوئی ہے۔ (طلوعِ اسلام: نومبر۱۹۵۳ء، ص۱۳)
2. اس سرزمین سے تیرہ سو سال کے بعد پہلی بار قرآن کی آواز اُٹھی ہے او رقدرت کو یہ منظور ہے کہ تیرہ سو سال کے بعد ایک بار پھر قرآنی نظام اپنی عملی شکل میں سامنے آئے۔ (طلوعِ اسلام: نومبر۱۹۵۴ء، ص۱۱)