کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 159
اسے ہم اللہ پر چھوڑتے ہیں جو عالم الغیب والشہادہ اور علیم بذات الصدور ہے۔ لیکن یہ بات بہرحال واضح ہے کہ جو کام مغربی ممالک کے ملحد فلاسفہ اوربے دین دانشور، مسلم معاشروں میں براہِ راست خود نہیں کرسکتے تھے، وہ کام ہمارے ’مفکر ِقرآن‘، ’قرآنی دانشور‘ بن کرکرتے رہے ہیں۔ ان کی پچاس سالہ ’قرآنی خدمات‘ کا مغز اور خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ زبان اپنی استعمال کرتے تھے مگر بولی غیروں کی بولتے تھے۔ دماغ تو اُن کا اپنا تھا مگر اس میں فکر غیروں کی تھی۔ الفاظ تو وہ قرآن ہی کے استعمال کرتے تھے مگر ان کے پیکروں میں تصورات اشتراکیت اور مغربی معاشرت سے مستعار و مستورد تھے۔چنانچہ وہ اپنی جن ’قرآنی خدمات‘ پرگولڈن جوبلی مناکر سطحِ ارض سے بطن زمین میں منتقل ہوئے، ان پر یہودی علماء و پیشوا، نصرانی احبار و رہبان، الحاد و دہریت کے پُشتی بان، زندقہ و سیکولرزم کے علمبردار، سب خوش وخرم ہوکر ان کی تعریف و تحسین میں رطب اللسان ہوکر اُنہیں ہدیۂ تبریک اور گل ہائے تہنیت پیش کرتے ہیں۔ جب کہ عالم اسلام کے علماء بیک زبان ہوکر ان پر فتواے کفر عائد کرتے ہیں۔ ’مفکر ِقرآن‘ کی تعلّی آمیز انانیت ’مفکر ِقرآن‘ صاحب جس قدر قرآن، قرآن کی رٹ لگایا کرتے تھے، اُسی قدر وہ قرآن سے گریزاں اور کتاب اللہ سے کنارہ کش تھے۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ وہ اپنے مقابلے میں جملہ اہل علم کو قرآن سے بے خبر اورجاہل قرار دیا کرتے تھے۔ چنانچہ انانیت کے ساتویں آسمان پر محو ِپرواز رہتے ہوئے وہ بلااستثنا تمام علماے کرام کے متعلق یہ اعلان کیاکرتے تھے : ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات قرآن سے قطعاً نابلد ہوتے ہیں۔‘‘ (طلوعِ اسلام: جون۱۹۵۶ء ص۶) ایک اور مقام پرعلما کے خلاف بڑا تحقیر آمیز رویہ اپناتے ہوئے، لیکن غرور و تکبر کی انتہائی بلندیوں پر براجمان ہوکر یہ فتویٰ داغتے ہیں : ’’ہمارا مُلّاطلوعِ اسلام میں پیش کردہ دعوت کاجواب دلائل و براہین سے تو دے نہیں سکتا (اس لئے کہ یہ دعوت قرآن کی دعوت ہے او رمُلّا بے چارہ قرآنی نور سے محروم ہوتاہے۔)‘‘ (طلوعِ اسلام: مئی ۱۹۵۳ء، ص۴۷)