کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 156
بھی کم از کم تین پاروں کی تدریس ضرور کرائی جائے۔ میرے اس مجوزہ طریقۂ تدریس پر عمل کرنے سے ان کے ذہنوں میں قرآنِ کریم کے اچھے فہم و مطالعہ کی راہ ہموار ہو گی جس سے اُنہیں ان مضامین یعنی تجوید اور حفظ میں بھی بڑی آسانی ہو جائے گی کہ وہ اب قرآنِ کریم کو سمجھ کر پڑھیں گے تو نسبتاً کم مدت میں حفظ کر سکیں گے اور فراغت کے بعد مستقبل میں اپنی ذمہ داریوں کو فہم و بصیرت کے ساتھ ادا کرنے کے اہل ہونگے، اور ضرورت کے وقت آسانی سے علوم اسلامیہ کے شعبوں میں داخلہ لے کر مزید ترقی کر سکیں گے۔ میں اپنے طویل غور و فکر وا تجربات کی روشنی میں تعلیم و تربیت کی یہ تجویز اسلامی مدارس کے اربابِ اختیار، مدرّسین، علماء اور وفاقوں کے افسرانِ بالا کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ یہ تجویز آسان اور قابل عمل ہے۔ اس کے نفاذ سے ہمارے اداروں کے تعلیمی نظام میں ایسا انقلاب آئے گا جو ان کی ترقی کا ذریعہ بنے گا اور ہمارے فاضل اساتذہ اور معلّمین بھی اس سے مستفید ہوں گے۔ إن شاء اللہ تعالٰی وھو الموفق والمستعان! کیا یہ طریقۂ تدریس قابل عمل ہے؟ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے اسلامی مدارس اور جامعات کے موجودہ حالات میں، جب ہمارے معلّمین اور طلبہ میں بالعموم عربی زبان بولنے اور لکھنے کا ذوق ناپید ہے اور ہمارے ملک اور ماحول میں ایسی کتابیں اور گائیڈز بھی موجود نہیں ہیں جو تعلیم و تدریس کے اس جدید طریقے میں معاون اور مفید ہوں، تو ہم اس طریقۂ تدریس پر عمل کیسے کریں ؟ اُصولی طور پر یہ طریقۂ تدریس آسان، فطری وار قابل عمل ہے۔ پہلے ہمیں اپنے فاضل اور محنتی معلّمین اور طلبہ کو اس کے فوائد اور دور رس نتائج اور ثمرات سے آگاہ کرتے ہوئے اس کے نفاذ اور ترویج کی اہمیت کو واضح کرنا چاہئے۔ معلّمین کو دعوت دی جائے بلکہ اُنہیں شوق اور ترغیب دی جائے کہ وہ اپنی عظیم درسگاہوں، اور اپنے عزیز بچوں کی ترقی کے اس پروگرام پر عمل کرنے کی تیاری کریں اور اپنے ماحول اور ادارے میں عربی زبان کو بولنے اور لکھنے کی روایت اور صلاحیت کو بیدار کریں۔ ان میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے لیکن کبھی استعمال نہ کرنے سے خوابیدہ رہتی ہے۔ اُصولی طور پر تو یہ حضرات قرآنِ کریم کے وسیع ذخیرۂ لغت کے حافظ ہوتے ہیں، اس کے علاوہ وہ حدیثِ شریف کی صحاحِ ستہ، عظیم فقہی متون، عربی زبان