کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 152
سال اوّل ہی سے عربی زبان کے پڑھنے بولنے اور لکھنے کی مشق کرنے لگیں گے جو ان کے ذہنوں اور دلوں میں عربی زبان و ادب کے اچھے ذوق کی بنیاد بنے گی۔
یہ ہمارے مدارس میں اسلامی تعلیم کا پہلا سال ہے۔ کمسن بچے بڑے شوق سے اور اچھے اچھے جذبوں کے ساتھ عربی زبان سیکھنے اور اسلامی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آتے اور اپنا تعلیمی سفر شروع کرتے ہیں۔ یہ ان کی بہتر تعلیم اور عمدہ تربیت کی بنیاد رکھنے کا سنہری وقت ہوتا ہے۔ آئیے ہم اس کا آغاز قرآن کریم کی معیاری اور مثالی تعلیم سے کریں۔
بچے خواہ مدارس کے عربی کورس میں داخلہ لیں یا تجوید القرآن الکریم کورس یا تحفیظ القرآن الکریم کورس میں داخل ہوں ان سب کو ان کے اپنے اپنے مضمون ترجمہ قرآنِ کریم / تجوید / تحفیظ کے ساتھ ساتھ لغتِ قرآن کریم کی تعلیم و تربیت ضرور دی جائے۔
کمسن بچوں کو قرآنی عربی زبان کی تعلیم دینا آسان ہے:
ہم سب جانتے ہیں کہ اسلامی مدارس کے طلبہ خواہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھتے ہوں یا اسے حفظ کرتے ہوں یا اس کی تجوید و قرأت کی علیم و تربیت پا رہے ہوں، وہ سب قرآنی آیات اور سورتوں کو بار بار اور تکرار سے پڑھتے رہتے ہیں۔ اس لئے اُنہیں قرآنِ کریم کے الفاظ، ترکیبات، استعمالات اور جملے زبانی یاد ہو جاتے ہیں۔ یوں اس تعلیمی مشق کے دوران ان کے ذہنوں میں عربی زبان کا ’نہایت وسیع او عمدہ ذخیرۂ لغت‘ محفوظ ہو جاتا ہے۔ یہ محفوظ ذخیرۂ لغت ان بچوں کو عربی زبان کی تعلیم و تربیت دینے کی اچھی بنیاد بن سکتا ہے۔
اس ’وسیع اور عمدہ ذخیرۂ لغت‘ کو محفوظ کرنے والے ان طلبہ کے فکری پہلو پر بھی غور کریں۔ وہ دین اسلام کے طلبہ ہیں اور اس کے سچے عقائد اور پختہ احکام و آداب کی تعلیم پا رہے ہیں۔ نتیجتاً وہ وسیع فکر و نظر کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ الغرض وہ لسانی اور فکری دونوں پہلوؤں سے عمدہ تعلیم و تربیت لینے کے اہل ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ اُنہیں عربی زبان کی عمدہ اور مؤثر تعلیم و تربیت دینے کا بہت سنہری موقع ہوتا ہے۔
عربی زبان کی تدریس کا موزوں ترین موقع:
بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ بغدادی قاعدہ رٹنے کے بعد قرآنِ کریم حفظ کرنے والے بچوں کے لئے عربی زبان کی تدریس کا یہ ایسا آسان اور عمدہ موقع ہوتا ہے جس کی مثال