کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 151
ترجمے نے سب کو عربی زبان سے لا تعلق کر دیا!
اس جامد طریقہ تدریس نے ہمارے پورے تعلیمی ڈھانچے کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ درسِ نظامی کے تمام مضامین کی تدریس، شروع سے لے کے آخر تک اسی نہج پر ہوتی ہے۔ اس نے ہمارے تمام طلبہ، طالبات، مدرسین اور علماء کو قرآنِ کریم کی زبان لسانِ عربی مبین سے لا تعلق کیا ہوا ہے۔ وہ اس کے فہم و مطالعہ سے محروم رہتے ہیں اور اُنہیں قرآن کریم کے الفاظ، ترکیبوں، محاوروں اور استعمالات میں تدبر اور غور و فکر کی تربیت دی جاتی ہے، نہ ان کے لکھنے اور بولنے اور متنوع استعمالات کی مشق کرائی جاتی ہے۔ اس طرح وہ کتاب اللہ کے حافظ اور عالم ہونے کے باوجود عربی زبان میں کوئی صلاحیت حاصل نہیں کر پاتے۔ یوں قرآنِ کریم کی تعلیم و تدریس میں اس جمود اور کاہلی نے عرصہ دراز سے ہمارے عزیز بچوں، نوجوانوں، مدرّسین، علماء، مفکرین اور تمام تعلیم یافتہ طبقوں کو عربی زبان سے لا تعلق اور محروم رکھا ہے۔ اس لئے یہ طریقۂ تدریس، جو ہمارے ملک اور خطے کے تمام ممالک کے اسلامی مدارس میں جاری و ساری ہے ناقص اور مضر ہے۔ ضرہ أکبر من نفعه! اس کے دیگر مضر اثرات کی مزید تفصیل دوسری جگہ ملاحظہ کریں :
چنانچہ سال اوّل کا یہ نقص اگلے تعلیمی مراحل میں بھی تعلیم و تربیت کے مقاصد کو متاثر کرتا ہے اور پورے درسِ نظامی کو سال اوّل سے لے کر سالِ ہشتم تک عربی زبان و ادب سے لا تعلق رکھتا ہے، اور اس پر عظیم مفکر شیخ سعدی رحمہ اللہ کا یہ شعر صادق آتا ہے: ؎
خشتِ اوّل چونہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج
خشتِ اوّل کو سیدھا کریں :
یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے کہ قرآنِ کریم کی عربی زبان نہایت آسان اور سلیس ہے اور اس کی آیاتِ کریمہ میں آسان اور مشہورلفظوں، مختصر اور عام فہم محاوروں، ترکیبوں اور جملوں کا استعمال بکثرت ہوا ہے۔ ہم زیر تعلیم بچوں کے مرحلے اور معیار کے مطابق ان سے ایسا انتخاب کر سکتے ہیں جو اُنہیں قرآنی عربی زبان کے فہم، نطق، تحریر اور سماع کی اچھی تربیت دے اور اُنہیں گرامر کی بھول بھلیوں میں نہ ڈالے۔ اس طرح بچے قرآن کریم کے ترجمہ یا فہم و مطالعہ کے ساتھ ساتھ اس کے عربی لغت کے فہم و مطالعہ، بول چال اور تحریر کی تربیت پائیں گے اور