کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 150
سالِ اوّل کے پہلے مضمون میں جمود: اس کے بعد بچوں کی ایک بڑی تعداد عربی زبان سیکھنے اور اسلامی تعلیم کے حصول کی غرض سے اسلامی مدارس میں داخل ہوتی ہے جہاں وہ سالِ اوّل کا تعلیمی نصاب پڑھتے ہیں۔ جس کا سب سے اہم اور پہلا مضمون ترجمہ قرآنِ کریم کے نام سے موسوم ہے۔ اس کی تدریس یوں ہوتی ہے کہ سبق کے آغاز پر ایک طالب علم مقررہ آیاتِ کریمہ تلاوت کرتا ہے، پھر معلم ان کا مقامی زبان میں ترجمہ سکھاتا ہے۔ وہ ان کا ترجمہ کرتے ہوئے ان میں مذکورہ مشکل الفاظ اور ترکیبوں کی حسبِ ضرورت تشریح بھی کرتا جاتا ہے۔ طلبہ اس ترجمہ اور تشریح کو نہایت توجہ اور انہماک سے سنتے اور یاد کر لیتے ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کے اس نہج سے اُنہیں متعدد علیمی و تربیتی فوائد حاصل ہوتے ہیں : 1. وہ قرآنِ کریم کی آیات کا معنی اور ترجمہ سیکھ لیتے ہیں۔ 2. وہ قرآنِ کریم کے فہم و مطالعہ کی قدرت حاصل کر کے اس کے ارشادات اور احکام کو خود سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کے اہل ہوتے ہیں۔ 3. وہ قرآن حکیم کے الفاظ اور تراکیب کی لغوی اور صرفی و نحوی تشریح سے واقف ہوتے ہیں۔ ترجمہ قرآنِ کریم کی ایسی تدریس سے ہمارے بچوں، نوجوانوں اور علماء کو مذکورہ بالا فوائد اور نتائج حاصل ہوتے ہیں لیکن یہ فوائد محدود اور ناکافی ہیں اور ہمارے عزیز بچوں کی اعلیٰ اور معیاری تعلیم و تربیت کے تمام اہداف اور مقاصد کا احاطہ نہیں کرے۔ اس لئے یہ طریقۂ تدریس کچھ مفید ہونے کے باوجود ناقص ہے۔ اور اس ناقص اور جامد طریقۂ تدریس کا تسلسل زیرِ تعلیم طلبہ میں جمود پیدا کرتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری درسگاہوں میں تعلیم قرآنِ کریم کا یہ عظیم ترین مضمون اس کی آیاتِ کریمہ کی لفظی ترجمہ رٹنے اور رٹانے تک محدود رہتا ہے اور تین چار سال تک کسی تبدیلی یا ترقی کے بغیر اسی نہج پر چلتا رہتا ہے، اور ایسا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا کہ اس کی تدریس کے دوسرے یا اگلے سالوں میں، جب زیر تعلیم طلبہ کی تعلیمی صلایت اور فکری و علمی معیار بڑھ جاتے ہیں اس کے تدریسی نہج کو ترقی دیتے ہوئے اس میں مزید تعلیمی و تربیتی مقاصد کو شامل کر لیا جائے۔