کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 147
امام غزالی کا کہنا یہ ہے کہ اس غفلت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر شخص نے سمجھا کہ دوسرے لوگ یہ علم حاصل کرلیں گے اور میں اس سے بری الذمہ ہو جاؤں گا۔ چنانچہ لوگ فقہ کا علم حاصل کرنے پر تو توجہ دیتے ہیں۔ طب کا علم حاصل کرنے پر توجہ نہیں دیتے۔ لوگ شریعت کا علم تو ذوق وشوق سے حاصل کرتے ہیں، لیکن انڈسٹری کا علم حاصل نہیں کرتے۔ اس لیے کہ شریعت اور فقہ کا علم حاصل کرنے سے بڑے بڑے مناصب ملتے ہیں۔ قاضی کا عہدہ ملتا ہے، مفتی کا عہدہ ملتا ہے۔ شاید اس زمانے میں لوگ کثرت سے علومِ شرعیہ کی طرف آتے ہوں گے۔ آج ہمارے یہاں اسلامک یونیورسٹی کی فیکلٹی آف شریعہ میں داخلے کے لیے اگر سوطلبہ آتے ہیں تو مینجمنٹ سائنسز میں داخلے کے لیے پانچ ہزار درخواست گزار آتے ہیں۔ اس لیے کہ ایم بی اے کرنے سے اچھی نوکری ملتی ہے۔ شریعت اور اُصول الدین پڑھنے سے نوکری نہیں ملتی۔
اسلامی معاشروں میں اس کے بر عکس ہوتا تھا کہ علم دین پڑھنے والے کو اچھی نوکریاں ملتی تھیں۔ قضا، فتویٰ اور فقہ کی تربیت کے لیے طالبانِ علم بڑی تعداد میں امام غزالی کے مدرسہ نظامیہ میں آتے تھے۔ طب پڑھنے کے لیے نہیں آتے تھے، اس لیے کہ طب کی بنیاد پر وزارت بھی نہیں ملتی تھی، قضا بھی نہیں ملتی تھی اور مفتی کا عہدہ بھی نہیں ملتا تھا۔
بہرحال اس سے یہ پتہ چلا کہ وہ تمام تخصّصات حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے جو اُمت ِمسلمہ کے دفاع اور وجود و استقلال کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان دو درجات کے تحت آنے والے علوم و فنون کے علاوہ جتنے بھی علوم ہیں وہ ملح العلوم یا علمی نکتے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر معاشرے میں کچھ لوگ ان علوم کو حاصل کریں تو اچھی بات ہے، تہذیبی اور تمدنی ترقیاں اس سے حاصل ہوتی ہیں۔ بہت سے سوشل سائنسز ہیں، ہیومنیٹیز کے معاملات ہیں۔ اگر کچھ لوگ معاشرے میں خطاطی کا پیشہ اختیار کرتے ہیں، کچھ لوگ معاشرے میں اس طرح کے کچھ اور پیشے اختیار کرلیں تو اس سے تہذیب وتمدن میں وسعت پیدا ہوگی۔ تہذیب و تمدن میں مزید ترقی ہوگی۔ لیکن اگر پوری قوم خطاطی یا فنونِ لطیفہ اور شعرو شاعری میں لگ جائے تو پھر بقیہ معاملات متاثر ہوں گے اور اُمت ِمسلمہ غیر مسلموں کی محتاج ہوجائے گی۔ اس لیے امام غزالی نے اس پر بہت تفصیل سے اظہارِخیال بلکہ اظہارِ افسوس کیا ہے کہ مسلمانوں نے فرضِ عین اور فرضِ کفایہ کی اس تقسیم کو نظرانداز کر دیا ہے۔