کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 146
میڈیکل فن کے قواعد کا پابند نہیں ہوں، یہ درست نہیں ہے۔ یہ سمجھنا بھی غلط ہے کہ میڈیکل پیشہ کے رائج الوقت معروف احکام اور قواعد کی پابندی شریعت کا حکم نہیں ہے۔ شریعت یہ بھی حکم دیتی ہے کہ اگر میں فن طب کو بطورِ پیشہ اختیار کروں تو مجھے اس میدان کے قواعد کا علم ہونا چاہیے اور اس زمانہ کے لحاظ سے ہونا چاہیے جس زمانے میں میں میڈیکل سائنس کو پریکٹس کر رہا ہوں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’’اگر کسی شخص نے علم طب سیکھے بغیر کسی کا علاج کیا، اور اس کو کوئی نقصان ہوگیا تو اس نقصان کا یہ علاج کرنے والا شخص ذمہ دار ہو گا۔‘‘ یہ اس نقصان کا تاوان ادا کرے گا۔ بعض فقہا نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عطائی کے ہاتھوں غلط علاج کے نتیجہ میں معذور ہو جائے یا مر جائے تو عطائی کو دیت ادا کرنی پڑے گی۔ اس سے پتا چلا کہ اس فن کے فنی احکام کو جاننا بھی اس فن کو اختیار کرنے والے پر فرضِ عین ہے اور اس فن سے متعلق شریعت کے احکام کو جاننا بھی اس فن کے مدعی پر فرضِ عین ہے۔ فرضِ کفایہ ’علم‘ یہ تو علم کا وہ کم سے کم دائرہ ہے جو ہرشخص کو حاصل ہونا چاہیے۔ دوسرا دائرہ فرضِ کفایہ کا ہے جس کے بارے میں فقہاے اسلام نے بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اور کئی دوسرے حضرات نے یہ بات لکھی ہے کہ ان تمام علوم وفنون سے واقفیت مسلمانوں کے لیے فرضِ کفایہ کی حیثیت رکھتی ہے جو امت مسلمہ کو دوسروں کا محتاج ہونے سے بچانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ چنانچہ ان تمام صنعتوں کا علم اور ان فنون کاعلم جن کی مسلمانوں کو ضرورت ہے، فرضِ کفایہ ہے۔ مسلمان کو اپنی تجارت میں، اپنے دفاع میں، اپنی آزادی اور استقلال کو برقرار رکھنے میں جس جس فن اور مہارت کی ضرورت ہو، اس کا حصول فرضِ کفایہ ہے۔ پھر امام غزالی نے اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ بہت سے لوگوں نے ان علوم میں دلچسپی لینا کم کردی ہے۔ امام غزالی کا حوالہ میں باربار اس لیے دے رہا ہوں کہ ان کو کسی دنیادار آدمی کے طورپر نہیں جانا جاتا، بلکہ ایک خاصے شدت پسند مذہبی انسان کے طورپر ان کا تعارف ہے، بلکہ خود بہت سے اہل علم نے، یہاں تک کہ اسلام کے بعض ذمہ دار ترجمانوں اور مستند شارحین نے بھی امام غزالی کے خیالات کو قدرے انتہاپسندانہ قرار دیا ہے۔