کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 145
ھُبوط کا لفظ کسی ذمہ داری کو انجام دینے کی غرض سے، چارج لینے کے سیاق وسباق میں بھی استعمال ہوا ہے۔ یہودیوں نے جب دعا کی کہ اللہ تعالیٰ! ارضِ مقدس کی حکومت ہمیں عطا فرما تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاقبول فرمائی اور یہودیوں کو ہدایت کی کہ ﴿اِھْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَاسَألْتُمْ﴾ (البقرۃ:۶۱) ’’اس شہر میں چلے جاؤ، جو مانگو گے ملے گا۔‘‘ یہاں بھی ھُبوط کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ ھُبوط کا لفظ کسی سزا کے طور پرکہیں بلندی سے پستی میں پھینکے جانے کے لیے نہیں، بلکہ ایک قسم کی تشریف و تکریم کے ساتھ ذمہ داری سنبھالنے کے لیے پہنچ جانے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس لیے قرآنِ مجید میں ایسا کوئی تصور موجود نہیں ہے کہ جس کے نتیجے میں انسان کا وجود خود ایک جرم اور ایک سزا کی نوعیت رکھتا ہو۔ یہ حقائق ہر انسان کو معلوم ہونے چاہئیں اور یہ اس کے عقیدے کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ سب ماتصح بہ العقیدۃ کا حصہ ہے۔ 2. فرضِ عین علم کا دوسرا درجہ ہے: ماتصح بہ العبادۃ، یعنی علم کا اتنا حصہ جس کی مدد سے عبادت درست طورپرادا ہوسکے۔ ہر انسان کچھ نہ کچھ عبادات کا مکلف ہے۔ نماز ہر ایک پر فرض ہے۔ روزہ ہر صحت مند بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ زکوٰۃ فرض ہے صاحب ِنصاب پر وغیرہ۔ لہٰذا شریعت کے احکام کا اتنا علم کہ انسان کی عبادات درست طریقے سے انجام پاجائیں، یہ فرض عین ہے۔ 3.اس کے بعد ہے ماتصح بہ المعیشۃ، یعنی انسان جو زندگی گزارتا ہے، اس زندگی گزارنے کا شریعت کے مطابق جو کم سے کم ڈھنگ ہے، وہ اس کو آجائے۔ زندگی گزارنے کا ڈھنگ مختلف میدانوں میں مختلف ہوتا ہے۔ تاجر کا ڈھنگ اور ہے، کاشتکار کا ڈھنگ اور ہے، اُستاد اور معلم کا ڈھنگ اور ہے۔ جو شخص جس میدان میں کارفرما ہے، اس کو نہ صرف اس میدان سے متعلق شریعت کے بنیادی احکام سے باخبر ہونا چاہیے بلکہ خود اس فن کے احکام بھی اس کو آنے چاہئیں۔ یہ سمجھنا کہ میں اگرمسلمان میڈیکل ڈاکٹر ہوں تو شریعت کے احکامات کا تو پابند ہوں، لیکن