کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 144
درجہ اس کے بھی بعد والے دائرے سے تعلق رکھتا ہو گا وہ مِلح العلم کہلائے گا۔
جو علم فرضِ عین کی حیثیت رکھتا ہے اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1. ایک وہ ہے جس علم کے ذریعے انسان کاعقیدہ درست ہو جائے: ما تصح بہ العقیدۃ یعنی اسلام کے عقائد کا وہ کم سے کم علم جس کے نتیجے میں انسان کا عقیدہ اور طرزِعمل درست ہو جائے۔ یعنی جدید مغربی اصطلاح (جرمن زبان) میں اسلام کا weltanschauungاس کے سامنے آجائے۔ یہ علم ضروری کا سب سے پہلا درجہ ہے کہ انسان یہ جان لے کہ میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، کیوں آیا ہوں، مجھے کہاں جانا ہے، میں اس دنیا میں کس کام کے لیے آیا ہوں ؟ ان سوالات کے جوابات انسان کے پاس ہونے چاہئیں۔ اگر انسان کسی ذمہ داری پر یہاں بھیجا گیا ہے تو ذمہ داری کے تعین کے لیے ان بنیادی سوالات کا جواب ناگزیر ہے۔
دنیا میں انسان کی ذمہ داری: واضح رہے کہ قرآنِ مجید کی رُو سے انسان کو ایک ذمہ داری کے ساتھ روئے زمین پر بھیجا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں جہاں آدم کو روے زمین پر اتارنے کا ذکر ہے وہاں ھُبوط کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ ھُبوط کے لفظ کو کچھ لوگوں نے fallکے لفظ سے تعبیر کیا ہے، جو صحیح نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں حضرت نوح علیہ السلام کے نزول کے سلسلہ میں کہا گیا ہے: اھبط بسلام منا وبرکٰت علیک یعنی ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ کشتی سے اُترو۔ گویا ھبوط ہورہا ہے اور پوری عزت کے ساتھ ہورہا ہے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہھبوط کے مفہوم میں سزا کا کوئی تصور نہیں ہے۔
اُترنے کے لفظ کا ترجمہ بعض مغربی مصنّفین نے fall کے نام سے کیا ہے۔ اُنہوں نے بائبل اور توریت کے تصورات کی روشنی میں اس کو دیکھا اور یہ سمجھا، گویا سزا کے طورپر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا تھا۔ قرآنِ مجید میں کہیں بھی سزا کا ذکر نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں تخلیق آدم سے پہلے ہی یہ کہا گیا تھا کہ زمین میں ایک جانشین بنانا مقصود ہے:
﴿إِنِّيْ جَاعِلٌ فِيْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً﴾(البقرۃ:۳۰)لہٰذا زمین میں خلافت تو پیدائش سے پہلے سے متعین تھی۔ اس کے بعد کہا گیا کہ اھبطوا ’’اُترو۔‘‘
ڈاکٹر حمیداللہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جب انسان کہیں پہنچتا ہے تو اس کو بھی اُترنا کہتے ہیں۔ کراچی جاکر اُترے، لندن جاکر اُترے، مکہ مکرمہ جاکر اُترے۔ کئی جگہ قرآنِ مجید میں