کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 143
بغیر فرد معیاری فرد نہیں بن سکتا۔ معیاری فرد کے بغیر معیاری خاندان وجود میں نہیں آسکتا۔ معیاری خاندان کے بغیر معیاری امت وجود میں نہیں آسکتی۔ امت کے بغیر ا نسانیت کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ امت کے بغیر ریاست قائم نہیں ہوسکتی۔ ریاست کی مدد اور وسائل کے بغیر شریعت کے بہت سے احکام پر عمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اصل الاصول بنیادی طورپر علم ٹھہرتا ہے۔ اب علم بھی ایک وحدت ہے۔ دینی علم ہو یا دنیاوی علم، دونوں ایک ہی حقیقت کبریٰ کے مختلف مظاہر ہیں۔ حقیقت ایک ہے اورحقیت کبریٰ ایک۔ اس لیے جس علم کا تعلق اس حقیقت سے جتنا قریبی ہے وہ علم اتنا ناگزیر ہے۔ جتنا دُور ہے اتنا ہی ناگزیر نہیں ہے۔ فرضِ عین ’ علم‘ ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ علم کی حیثیت فرض عین کی ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ایک مرحلہ ایساآتا ہے کہ علم کی حیثیت فرضِ کفایہ کی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایک درجہ ہوتا ہے کہ علم کی کیفیت محض ایک ایسے نکتے کی ہوتی ہے جس کو برصغیر کے بعض اہل علم نے دسترخوان کی چٹنی سے تشبیہ دی ہے۔ دسترخوان میں چٹنیاں بھی ہوتی ہیں، لیکن وہ مرکزی کھانے کا حصہ تو نہیں ہوتیں اور ہوبھی نہیں سکتیں، لیکن چٹنی کے بغیر دسترخوان کی تکمیل بھی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح سے علم کا ایک درجہ ہے جس کو امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے ملح العلم کے نام سے یاد کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک علم کا صلب یعنیcore ہے، اور ایک وہ ہے کہ جو علم کااصل تو نہیں ہے لیکن اس کی حدود پر ہے اور ایک وہ ہے جو ملح العلم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے اس کا علم سے تعلق نہیں ہے اور وہ علم ٗغیر نافع ہے۔ یہ استدلال اُنہوں نے اس حدیث سے کیا جس میں حضورعلیہ السلام نے فرمایا کہ (( اللّٰھم إني أعوذ بک من علم لاینفع)) (صحیح مسلم:۲۷۲۲) ’’اے اللہ میں علم غیر نافع سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ علم کا ایک درجہ یا ایک سطح ایسی ہوسکتی ہے کہ وہ غیرنافع ہو، اس کو علم کہا جاسکتا ہے اور وہ حقیقت سے کسی نہ کسی حد تک تعلق بھی رکھتا ہے۔ لیکن اس کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے، لہٰذا اس کے حصول میں وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو علم حصول کا مستحق ہے وہ ہے جو حقیقت کی صلب (یعنی core of reality) سے تعلق رکھتا ہو۔ یہی علم فرضِ عین ہے جو علم اس کے بعد والے دائرے سے تعلق رکھتا ہو، وہ فرضِ کفایہ ہو گا۔ علم و دانش اور ادب کا جو