کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 142
کرو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اس لیے کہ اگر تم اللہ کو نہیں دیکھ رہے تو یہ یقین رکھو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری:۵۰)
جب یہ سعادتِ حقیقیہ حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے چار نتائج انسان کے طرزِعمل میں سامنے آتے ہیں :
1. پہلا نتیجہ تو یہ ہوتا ہے کہ انسان کے اندر جو منفی رجحانات ہیں، جن کے لیے بہیمیت کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، یہ انسان کے مثبت /ملکوتی رجحانات کے تابع ہو جاتے ہیں۔
2. جب ایسا ہو جائے توپھر انسان کی خواہشات اور اَہواء انسان کی عقل کے تابع ہو جاتی ہیں۔ عقل اہواء کے تابع نہیں ہوتی بلکہ اہواء اور خواہشات عقل کے تابع ہو جاتی ہیں۔
3. تیسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کا نفس ناطقہ، انسان کی حقیقت، اندر سے خوبخود اس عمل کے نتیجے میں شریعت کے احکام اور عقائد سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ پھر اس کے لیے شریعت فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔ دوسرے انسان جس پر بہ تکلف عمل کرتے ہیں، وہ ایک تربیت یافتہ فرد کے لیے فطرتِ ثانیہ کی بات ہوجاتی ہے اور اس سے خود بخود شریعت کے احکام پر عمل درآمد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
4. اور آخری چیز یہ کہ اس کو حضوری کی کیفیت حاصل ہوجاتی ہے، جس کو حدیث میں ’احسان‘ کے لفظ سے یا د کیا گیاہے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس کیفیت کو حاصل کرنے کے لیے دوطرح کی تدابیر اختیار کرنی پڑتی ہیں۔ کچھ تدابیرتو وہ ہیں جو علمی تدابیرکہلاتی ہیں اور کچھ تدابیر عملی تدابیر ہیں۔ علمی تدابیر میں دنیاوی علم بھی شامل ہے اور شریعت کا علم بھی۔ دنیاوی تدابیر میں تربیت بھی شامل ہے اور انسان کی ظاہری تہذیب ِنفس بھی شامل ہے۔ یہ سب علمی تدابیر ہیں۔ عملی تدابیر سے مراد انسان کو ایک ایسے معاشرے کا فراہم ہونا اور ایک ایسے ماحول کا دستیاب ہوناہے جہاں اس کے لیے ان چیزوں پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔
علم کی اہمیت وحیثیت
اب چونکہ علم کی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ اس کے بغیر تربیت مکمل نہیں ہوسکتی۔ تربیت کے