کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 141
سے، اپنے مزاج اور تربیت کے لحاظ سے ایسا ہے کہ اس نے ازخود اپنے اندر ملکوتی عناصر کو ترقی دے رکھی ہے اور اپنے اندر کی بہیمیت کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر زمانے میں ’سابقین اولین‘ ہوئے۔ صحابہ کرام میں کثرت سے ایسے لوگوں کی مثالیں ہیں۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ
(( خیارکم في الجاھلیۃ خیارکم في الإسلام)) (صحیح بخاری:۳۳۷۴)
’’جو جاہلیت میں اچھے اور سعید تھے وہ اسلام میں بھی اچھے اور سعید/ نیک بخت ہیں۔‘‘
4. ایک طبقہ وہ ہے کہ جس میں نہ صرف فی الوقت سعادت موجود ہے بلکہ مزید سعادت کی صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس طبقہ کو یہ صلاحیت اور ہمت دی ہے کہ وہ دوسروں کو بھی سعادت اور خیر کی طرف لاسکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن نے ’والسابقون السابقون‘ کہا ہے کہ سابقین اولین کے بھی وہ سابقین اوّلین ہیں۔ وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ اُوْلئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ!یہ وہ مقربان بارگاہ الٰہی ہیں جو ہر دور اور ہر زمانے میں انسانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنتے ہیں اور انسانیت کے لیے عزت وتکریم کا باعث ہوتے ہیں۔
جب انسان اس سعادت کے حصول کے لیے پیش قدمی کرتا ہے تو اس کو دوقسم کے کام کرنے ہوتے ہیں۔ کچھ کام تو وہ ہیں جو کہ ظاہری اعتبار سے اس لیے کرنے چاہئیں کہ انسان اپنے ظاہر کوسعادتِ حقیقیہ کے تقاضوں کے مطابق ڈھال سکے۔ یہ شاہ ولی اللہ کے الفاظ ہیں۔ ’’انسان اپنے ظاہر کو سعادت کے تقاضوں کے مطابق ڈھال سکیں۔‘‘ شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ شریعت نے جتنے احکام دیے ہیں، عبادتیں مقرر کی ہیں، معاملات کے بارہ میں ہدایات دی ہیں۔ یہ سب کا سب اسی لیے ہے کہ انسان کاظاہر اس کی سعادت ِحقیقیہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور ہم کنار ہو جائے۔ کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جس کا تعلق اندر کی اصلاح سے ہوتا ہے۔ بظاہر وہ اصلاح نظر نہیں آتی، بظاہر انسان کے ظواہر پر اس کا اثر نہیں پڑتا، لیکن اندر ایک ایسا جذبہ خدا ترسی اور خوفِ الٰہی کا پیدا ہوجاتا ہے کہ انسان ایک خاص انداز میں خودبخود چلنے لگتا ہے۔ شریعت اس کے لیے فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔ شریعت پر وہ عمل درآمد اس طرح کرنے لگتا ہے کہ جس طرح حدیث میں ہے کہ ’’اللہ کی عبادت ایسے