کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 140
پیدا ہوتی ہیں، ان کا اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔شاید اسی لیے متکلمین اسلام اور صوفیا نے بالخصوص اور مسلم فلاسفہ نے بالعموم اس کے لیے ’سعادت‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ سعادت کا لفظ قرآنِ پاک میں متعدد بار استعمال ہوا ہے۔ قرآنِ مجید نے کامیاب انسان کو سعید قرار دیا ہے۔ فمنھم شقی وسعید انسان دوقسم کے ہیں۔ ایک وہ ہے جن کو سعادت اور نیک بختی حاصل ہے۔ دوسرے وہ ہیں جن کو نیک بختی حاصل نہیں ہے۔ وہ بدبخت ہیں۔ سعادت کے لفظ میں وہ تمام خوبیاں شامل ہیں جو قرآنِ پاک اور سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہدف ہیں اور جو انسان کو اس دنیا میں اور آخرت میں کامیابی سے ہم کنار کرسکتی ہیں۔ سعادت حقیقی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ وہ تدابیر اختیار کی جائیں جو انسان کو بہیمیت کے منفی نتائج سے محفوظ رکھیں، انسانیت کے ملکوتی پہلو کو ترقی دیں اور اس دنیا میں صلاح اور آخرت میں فلاح کے لیے انسانوں کو کامیاب اورمستحق بنائیں۔ یہ خلاصہ ہے اس مفہوم کا جو سعادت کے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اما م غزالی، فارابی، ابن سینا اور بہت سے مفکرین اسلام نے بیان کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ سعادت کے حصول کے ضمن میں انسانوں کے چار درجے ہوسکتے ہیں۔ اور مشاہدہ یہ ہے کہ ہر دور میں یہ چاروں طبقے سعادت کے حوالے سے موجود رہتے ہیں۔ 1. کچھ لوگ تو وہ ہیں کہ جن کو نہ سعادت حاصل ہے اور نہ اُمید ہے کہ ان کو کبھی سعادت حاصل ہوگی۔ یعنی اُنہوں نے اپنی بہیمیت کو اتنا قوی اور ناقابل شکست بنا دیا ہے کہ اب ان میں ملکوتی عناصر یا ختم ہوگئے ہیں یا بہت کمزور ہوگئے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کے بارہ میں قرآن مجید میں کہاگیا ہے: ﴿صُمٌّ ُبکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ﴾ (البقرۃ:۱۸) ’’یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، اس لیے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘ 2. ایک طبقہ وہ ہے جو خاصی بڑی تعداد میں ہوتا ہے جس کو فی الوقت تو سعادت حاصل نہیں ہے، لیکن اُمید ہے کہ سعادت حاصل ہو جائے گی۔ اس لیے کہ اس کے اندر کی بہیمیت ابھی پورے طور پر زور آور نہیں ہوئی، اور ملکوتیت بھی پورے طور پر ختم نہیں ہوئی۔ 3. ایک تیسرا طبقہ ہے جو نسبتاً کم ہوتا ہے۔ یہ وہ ہے جو پیدائشی طورپر یا اپنی جبلت کے لحاظ