کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 136
میں تلاش نہیں کرتا۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ آخری عشرے میں ہے اور یہ بھی سنا :
(( التمسوھا في تسع یَبقین أو في سبع یبقین أو في خمس یبقین أو في ثلاث أو آخر لیلۃ))
(جامع ترمذی، کتاب الصوم، رقم:۷۹۴ و قالہ :حسن صحیح)
’’جب نو، سات، پانچ یا تین یا آخری رات باقی رہ جائے تو اسے تلاش کرو۔‘‘
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رمضان کی پہلی بیس راتوں میں عام دنوں کی طرح (معمول کے مطابق) نماز پڑھتے لیکن جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو عبادت میں خوب محنت کرتے۔
معلوم ہوا کہ ماہ رمضان کے آخری عشرہ کی پانچ طاق (۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۹) راتوں میں سے کوئی ایک رات قدر والی ہے۔ ان مختلف احادیث کی بنا پر کسی ایک رات کو متعین نہیں کیاجاسکتا۔ عین ممکن ہے کہ یہ ان پانچ طاق راتوں میں ہرسال بدل بدل کر آتی ہو۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس رات کی تعین کے متعلق چھیالیس مختلف اقوال بیان کئے ہیں۔ پھر آخر میں اپنافاضلانہ فیصلہ ان الفاظ میں دیتے ہیں : وأرجحھا کلھا أنھا في وتر من العشر الأخر وأنھا تنتقل کما یُفھم من أحادیث الباب (فتح الباری:۴/۳۳۸)
’’ان سب اقوال میں میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ شب ِمبارک رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے اور یہ ہرسال منتقل ہوتی (بدلتی) رہتی ہے جیسا کہ اس موضوع کی احادیث سے عیاں ہے۔‘‘
بہرحال ماہِ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات قدر والی ہے جس کی تعیین نہیں کی جاسکتی، اس لیے ہمیں ان پانچ راتوں میں خوب عبادت کرنی چاہئے تاکہ اس کی فضیلت حاصل کی جاسکے۔
شب ِقدر کی علامات
1. شب ِقدر میں جب چاند نکلتا ہے تو ایسے ہوتا ہے جیسے بڑے تھال کاکنارہ۔ (صحیح مسلم: ۱۱۷۰)
2. شب ِقدر ایک خوشگوار رات ہے جس میں نہ گرمی ہوتی ہے اور نہ سردی۔ اس صبح کاسورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کی سرخی مدھم ہوتی ہے۔ (ابن خزیمہ:۳/۳۳۱ ’حسن‘)
3. شب ِقدر کی صبح سورج یوں طلوع ہوتا ہے کہ اس کی شعاعیں نہیں ہوتیں۔ (مسلم:۷۶۲)