کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 135
پاس سے حکم ہوکر، ہم ہی رسول بنا کر بھیجنے والے ہیں۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر یوں ارشادفرمایا: ﴿اِِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ٭ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ٭ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ ٭ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِاِِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ ٭ سَلٰمٌ ہِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴾(القدر :۱تا۵) ’’یقینا ہم نے ہی اسے یعنی قرآن کو شب ِقدر میں نازل فرمایا، تم کیا جانو کہ شب ِقدر کیاہے؟ شب ِقدر ایک ہزارمہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں ہر کام کے سرانجام دینے کو اپنے ربّ کے حکم سے فرشتے اور روح (جبریل) اُترتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔‘‘ ٭ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( من قام لیلۃ القدر إیمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہٖ)) (صحیح بخاری:۳۵) ’’جس نے شب ِقدر میں حالت ِایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کیا، اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ ٭ لیلۃ القدر اپنی تمام تر عظمتوں اور فضیلتوں سمیت ہرسال ماہِ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں آتی ہے جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( تَحرَّوا لیلۃ القدر في الوتر من العشر الأواخر من رمضان))(بخاری :۲۱۱۷) ’’شب ِقدر کوماہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ ٭ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب ِقدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لارہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں کچھ جھگڑا کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( خرجت لأخبرکم بلیلۃ القدر فتلاحی فلان وفلان فرفعت وعسیٰ أن یکون خیرًا لکم فالتمسوھا في التاسعہ والسابعۃ والخامسۃ))(ایضاً، :۲۰۲۳) ’’میں تمہیں شب ِقدر بتانے کے لیے نکلا تھا۔لیکن فلاں اور فلاں نے آپس میں جھگڑا کرلیاتو اس (شب ِقدر) کا علم واپس اُٹھا لیا اورامید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہوگا۔لہٰذا اب تم اسے (رمضان کی) اکیسویں، تیسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کرو۔‘‘ ٭ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس شب ِقدر کا ذکر ہوا تو اُنہوں نے کہا: میں اسے کسی ایک رات