کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 133
سب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے، مثلاً صدقہ و خیرات، دعوت و تبلیغ، دعا و مناجات، ذکر و اذکار، توبہ و استغفار، تعلیم و تعلّم، صلہ رحمی وغیرہ یعنی خیر کے ان تمام کاموں کی طرف سبقت حاصل کرنی چاہئے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیر کے کاموں میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ یہ سخاوت ماہِ رمضان میں اس وقت اور بڑھ جاتی جب جبریل امین علیہ السلام آپ سے ملاقات کرتے۔ اس وقت آپ تیز ہوا سے بھی زیادہ جلدی کرتے ہوئے خیر کے کاموں کی طرف سبقت لے جاتے تھے۔‘‘ (بخاری: رقم۶)
مولانا داؤد راز رحمۃ اللہ علیہ دہلوی فرماتے ہیں :
’’ جود کے معنی إعطاء ما ینبغي لمن ینبغي کے ہیں جوبہت زیادہ عموم لیے ہوئے ہے۔ پس جود (سخاوت) مال ہی پر موقوف نہیں بلکہ جوشے بھی جس کے لیے مناسب ہو، اسے دے دی جائے۔ اس لیے آپ ’اَجود الناس‘ تھے۔ حاجت مندوں کے لیے مالی سخاوت، تشنگانِ علوم کے لیے علمی سخاوت، گمراہوں کے لیے فیوضِ روحانی کی سخاوت، الغرض آپ ہر لحاظ سے تمام بنی نوع انسان میں بہترین سخی تھے۔ آپ کی جملہ سخاوت کی تفصیلات کتب ِاحادیث و سیر میں منقول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جود و سخاوت کی تشبیہ بارش لانے والی (تیز) ہواؤں سے دی گئی ہے جوبہت ہی مناسب ہے۔بارانِ رحمت سے زمین سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے۔ آپ کی جود و سخاوت سے بنی نوع انسان کی اُجڑی ہوئی دنیا آباد ہوگئی۔ ہر طرف ہدایات کے دریا بہنے لگے۔ خداشناسی اوراخلاقِ فاضلہ کے سمندرموجیں مارنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور روحانی کمالات سے ساری دنیاے انسانیت نے فیض حاصل کئے اور یہ مبارک سلسلہ تاقیامِ دنیا قائم رہے گا۔‘‘ (صحیح بخاری مترجم:۳/۱۶۱، ۱۶۲)
٭ گزشتہ سطور میں آپ حدیث ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ماہِ رمضان کی ہر رات ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتاہے :
یا طالب الخیر ھلمّ، و یا طالب الشر أمسک (سنن نسائی، رقم:۲۱۰۸)
’’اے خیر کے طالب! (خیر کی طرف) جلد آ، اے بُرائی کے طالب ! (بُرائی سے) رُک جا۔‘‘
6. ماہِ رمضان کا آخری عشرہ
ویسے تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ ہی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اوربرکتوں سے لبریز ہے۔ لیکن اس کے آخری دس دن تو بہت ہی زیادہ فضیلت کے حامل ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم