کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 131
﴿شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدَیٰ وَالْفُرْقَانِ﴾ (البقرۃ:۱۸۵) ’’ماہِ رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے باعث ِہدایت ہے اوراس میں ہدایت کی اور حق و باطل میں تمیز کی واضح دلیلیں ہیں۔‘‘ معلوم ہوا کہ قرآن اور رمضان کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس لیے اس مہینے میں قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنی چاہئے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : وکان جبریل علیہ السلام یلقاہ کل لیلۃ في رمضان حتی ینسلخ، یعرض علیہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم القرآن (صحیح بخاری، کتاب الصوم، رقم:۱۹۰۲) ’’جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کی ہر رات کوملتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں قرآنِ مجید سناتے۔‘‘ ایک روایت میں ہے : وکان یلقاہ في لیلۃ من رمضان فیدارسہ القرآن (صحیح بخاری، بدء الوحی، رقم:۶) ’’جبریل امین علیہ السلام رمضان المبارک میں ہر رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآنِ مجید کا دور کیا کرتے تھے۔‘‘ مولانا داؤد راز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’یہ نزولِ قرآن لوحِ محفوظ سے بیت العزت میں سماء دنیا کی طرف تھا۔ پھر وہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول بھی رمضان شریف ہی میں شروع ہوا۔ اس لیے رمضان شریف قرآنِ کریم کے لیے سالانہ یادگارمہینہ قرار پایا اور اسی لیے اس ماہِ مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریل علیہ السلام قرآنِ مجید کا باقاعدہ دور فرمایا کرتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری مترجم:۳/۱۶۱) 4. اِعتکاف ماہِ رمضان کے خصوصی اعمال میں سے ایک اعتکاف بھی ہے۔ تمام دنیاوی مصروفیات ترک کرکے محض عبادت کی نیت سے مسجد میں آکرٹھہرنے کو ’اعتکاف‘ کہتے ہیں۔ یہ مبارک عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِمؤکدہ سے ثابت ہے۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مدنی زندگی میں ہر سال ماہ رمضان کا جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو مسجد میں آکر اعتکاف فرماتے۔ ایک سال کسی سفر کی وجہ سے یہ عمل چھوٹ گیاتو اگلے سال آپ نے بیس دن کااعتکاف کیا۔ چنانچہ