کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 130
جمع کیا تھا اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تھی۔ میں نہیں جانتا کہ لوگوں نے یہ بہت سی رکعتیں کہاں سے نکال لی ہیں۔‘‘
٭ علامہ ابوبکر بن العربی فرماتے ہیں :
والصحیح أن یُصَلَّ إحدی عشرۃ رکعۃ صلاۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم وقیامہ فأما غیر ذلک من الأعداد فلا أصل لہ (عارضۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی :۴/۱۹)
’’صحیح بات تو یہی ہے کہ (نمازِ تراویح) گیارہ رکعات ہی پڑھنی چاہئے۔ یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور قیام ہے۔ اس کے علاوہ جو اعداد ہیں تو ان کی کوئی اصل (کتاب و سنت میں )نہیں۔‘‘
5. آخری بات یہ ہے کہ کیا تراویح اور تہجد دو الگ نمازیں ہیں یا ایک ہی نماز کے دو مختلف نام ہیں ؟
اس سوال کا جواب آسان ہے کہ تہجد اور تراویح ایک ہی نماز کے دو مختلف نام ہیں۔ عام دنوں میں جسے نمازِ تہجد کہا جاتا ہے، وہی رمضان میں نمازِ تراویح کہلاتی ہے۔
حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ ’فتاویٰ اہل حدیث‘ میں فرماتے ہیں :
’’تہجد اور تراویح ایک ہی ہے۔ مغایرتِ اسمی اس طرح کی ہے جیسے دریائے برہم پتر، سانپر، مینگھنا۔ یہ تینوں ایک دریا کے نام ہیں جوجھیل مانسرور کوہِ ہمالیہ کی جانب شمال سے نکلتا ہے۔ اسی طرح اٹک، سندھ وغیرہ دریا ایک ہی ہے جس علاقے سے گزرا اس کے نام سے موسوم ہوگیا، ٹھیک اسی طرح تراویح ہے۔ رمضان میں اسی تہجد کا نام تراویح رکھ دیا گیا۔ کیونکہ چار پڑھ کر ذرا ترویحہ کرتے یعنی ٹھہر جاتے ہیں پھر یہ نام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں نہ تھا بلکہ اس کو اس وقت قیامِ رمضان کے نام سے موسوم کرتے تھے جو بالکل دریا کی مثالِ مذکور کے موافق ہے جہاں سے گزرا، وہاں کے نام سے موسوم ہوگیا۔‘‘ (۱/۶۳۹)
مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ فرمائیں : ’آپ کے مسائل اور اُن کا حل‘ از مولانا مبشرربانی :۱/۳۰۲ تا ۳۰۴
3.تلاوتِ قرآنِ کریم
ماہِ رمضان میں جن اعمال کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے، ان میں تلاوتِ قرآنِ مجید بھی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں رمضان کے روزوں کی فرضیت ذکر کی وہاں اس کے ساتھ ہی ماہِ رمضان کی یہ خصوصیت بھی بیان فرمائی: