کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 127
پڑھی لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں پڑھی پھر دوسری رات جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تو مقتدی زیادہ ہوگئے پھر تیسری رات بھی ایسے ہوا چوتھی رات جب لوگ (زیادہ) جمع ہوگئے تو آپ گھر سے تشریف ہی نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أمابعد: فإنہ لم یخفَ عليَّ مکانَکم ولکني خشیت أن تُفرض علیکم فتعجزواعنھا)) (بخاری، کتاب صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان، رقم:۲۰۱۲)
’’اما بعد! مجھے تمہارے یہاں جمع ہونے کا علم تھا لیکن مجھے خوف اس بات کا ہوا کہ یہ نماز تم پر فرض نہ کردی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہوجاؤ۔‘‘
٭ سنن ابوداؤد کی روایت میں ہے :
وذلک في رمضان یعنی رمضان کی بات ہے۔ (ابوداؤد رقم۱۳۷۳)
٭ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے۔ آپ نے ہمارے ساتھ کوئی قیام نہ کیا حتیٰ کہ مہینے میں ایک ہفتہ باقی رہ گیا تو آپ نے ہمیں قیام کروایا حتیٰ کہ تہائی رات ہوگئی۔ جب (آخر سے) چھٹی رات آئی تو آپ نے قیام نہ کرایا۔ جب پانچویں رات آئی تو ہمیں قیام کروایا حتیٰ کہ آدھی رات گزر گئی۔ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کاش ہمیں آپ بقیہ رات بھی اس کا قیام کروا دیتے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إن الرجل إذا صلی مع الإمام حتیٰ ینصرف حسب لہ قیام اللیل))
’’انسان جب امام کے ساتھ (باجماعت) نماز پڑھتا ہے اور اس کے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہتا ہے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام شمار کیا جاتاہے۔‘‘
جب چوتھی رات آئی تو آپ نے قیام نہ کروایا۔ جب تیسری رات آئی تو آپ نے اپنے اہل خانہ، خواتین اور دوسرے لوگوں کو جمع فرمایا اور ہمیں (اتنا لمبا) قیام کرایا کہ ہمیں فکر لاحق ہوئی کہ کہیں ہماری سحری نہ رہ جائے۔ (سنن ابوداؤد :۱۳۷۵ صحیح)
ان احادیث سے بصراحت واضح ہوگیا کہ نمازِ تراویح باجماعت ادا کرنا نہ صرف جائز بلکہ افضل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتوں میں مسجد آکر اجتماعی طور پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ قیام کرکے ثابت فرما دیا کہ یہ مستحب و مسنون ہے۔بعدازاں اس ڈر سے کہ کہیں یہ نماز باجماعت