کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 126
نماز پڑھنے کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے اوّل حصے میں سوتے تھے اور آخری حصے میں نماز پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری، رقم :۱۱۴۶)
٭ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااکثر معمول تھا۔ ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے سبھی حصوں میں نماز ادا کرے اُمت پر آسانی فرمائی ہے، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات تہجد پڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھ لیتے تھے اور اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سویا ہوا دیکھنا چاہتے تو دیکھ لیتے تھے۔ (صحیح بخاری:۱۱۴۱)
٭ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں جب اس نماز کی جماعت کا باقاعدہ اہتمام فرمایا تو ایک دن لوگوں کو رات کے اوّل حصے میں باجماعت تراویح ادا کرتے ہوئے دیکھ کر فرمایا:
والتي ینامون عنھا أفضل من التي یقومون یرید آخر اللیل وکان الناس یقومون أوّلہ۔ (صحیح بخاری، کتاب صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان، رقم:۲۰۱۰)
’’رات کاوہ حصہ جس میں یہ لوگ سوجاتے ہیں اس حصے سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد رات کے آخری حصے (کی فضیلت) سے تھی۔کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔‘‘
بہرحال نمازِ تراویح کا عشاء کے فوراً بعد پڑھ لینا جائز جب کہ دیر سے یعنی رات کے آخری حصے میں پڑھنا زیادہ فضیلت کاحامل ہے۔
3. نمازِ تراویح باجماعت یا جماعت کے بغیراداکرنادونوں طرح جائز اور درست ہے۔ تاہم باجماعت ادا کرنے میں زیادہ فضیلت ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( صلاۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ الفذ بسبع وعشرین درجۃ)) (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، رقم:۶۴۵)
’’باجماعت نماز اکیلے شخص کی نماز سے ستائیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔‘‘
اس حدیث کے عموم میں نمازِ تراویح کی جماعت بھی شامل ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نمازِ تراویح کی جماعت کروائی ہے۔
٭ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نمازِتراویح