کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 124
شخص اس سے غفلت برتے تو وہ بہت بڑے اجر و ثواب سے محروم رہ جاتا ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کو اس کی بڑی ترغیب دلایا کرتے تھے چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ (( کان رسول ﷲ!یرغب في قیام رمضان من غیر أن یأمرھم فیہ بغریمۃ فیقول: من قام رمضان إیمانا واحتسابا غُفرلہ ماتقدم من ذنبہٖ)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام رمضان کی ترغیب دیا کرتے تھے، بغیر اس کے کہ آپ واجبی طور پر اُنہیں حکم دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جو کوئی ایمان کے ساتھ حصولِ ثواب کی نیت سے رمضان کاقیام کرے اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم:۸۵۹) قیام رمضان کے حوالے سے چند اہم باتیں 1. قیام رمضان دراصل تہجد ہی کی نماز ہے جسے رمضان میں ’تراویح‘ کہاجاتا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : والتراویح جمع ترویحۃ وھي المرۃ الواحدۃ من الراحۃ کتسلیمۃ من السلام۔ سمیت الصلاۃ في الجماعۃ في لیالي رمضان التراویح لأنھم أوّل مااجمعوا علیھا کانوا یستریحون بین کل تسلیمتین(فتح الباری: ۴/۳۱۷) ’’تراویح ترویحۃ کی جمع ہے جو راحت سے مشتق ہے یعنی آرام جیسے تسلیمۃ سلام سے مشتق ہے۔ رمضان کی راتوں میں جماعت سے (نفل)نماز اداکرنے کو تراویح کہاجاتاہے اس لیے کہ شروع میں لوگ ہردوسلام کے بعد کچھ دیر آرام کیاکرتے تھے۔‘‘ یاد رہے کہ نمازِ تراویح کو قیام اللیل اور صلاۃ اللیل بھی کہاجاتا ہے جب کہ حقیقت میں یہ (قیامِ رمضان، تہجد، صلاۃ اللیل یا قیام اللیل وغیرہ) سب ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔ تاہم غیر رمضان کی بہ نسبت رمضان المبارک میں اسے اداکرنے کی زیادہ تاکید اورفضیلت بیان کی گئی ہے۔ 2. قیامِ رمضان یانمازِ تراویح کاوقت عشا کی نماز کے بعد سے لے کرفجر کی اذان تک رہتا ہے۔ اس دوران اسے کسی بھی وقت اداکیا جاسکتا ہے۔چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: کان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یصلي فیما بین أن یفرغ من صلاۃ العشاء وھي التي یدعوا الناس العتمۃ إلی الفجر إحدی عشر رکعۃ یسلم بین کل