کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 113
نہیں کہ ہر نوعیت کے اقدام سے قبل تحقیق و تعلیم کا مرحلہ آتا ہے۔ جس طریقے سے بھی یہ مقصد حاصل ہو جائے، حالات کے تحت وہی اُسلوب اس کے لئے موزوں تر ہے۔ البتہ بزورِ جبر اس کو تمام لوگوں پر نافذ کرنے کی بجائے مخلص اور متدین حضرات پر مبنی محدود و معاشرے کا قیام اس کا محتاط ترین طریقہ ہے اور فی الوقت یہی طریقہ دنیا بھر میں مختلف نظریاتی گروہوں نے اختیار کر رکھا ہے لیکن اس کے لئے آغاز میں جہدِ مسلسل اور بے دریغ قربانیوں کی ضرورت ہے۔ جوں جوں یہ معاشرہ وسیع تر ہوتا جائے گا، اس کو برقرار رکھنا آسان اور اس کے فوائد وسیع تر ہوتے جائیں اور اس معاشرے کی تشکیل کتاب و سنت کے حاملین کے ہاتھوں ہی ہوں گی جس میں دین کی تعلیم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثتِ علمی کی حفاظت اعلیٰ ترین اعزاز ٹھہرے گی۔ دینی مدارس تو نہ عام درسگاہوں کی مثل ہیں اور نہ ہی مستقبل کا کوئی وظیفہ ان کا مطمح نظر ہے جو معاشرہ اُنہیں فراہم کرے۔ یوں بھی کوئی شخص محض تعلیم سے ہی انبیاء کی وراثت پر فائز نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کیلئے خصوصی مجاہدہ اور تربیت کی ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے فضلائے مدارس کو عام فضلا کی طرح معاشرہ سے توقعات وابستہ رکھنے کی بجائے اپنی اعلیٰ ترین منزل کیلئے بہترین مساعی بروئے کار لانا چاہئیں، اپنے علم و شعور کو بہتر سے بہترین کرنا چاہئے اور اس جادۂ حق کے ’سابقون اوّلون‘ بن کر عظیم ترین منزل کی طرف پیش قدمی کرنا چاہئے۔ (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)