کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 112
جاتی ہے۔ یوں بھی سیکولرازم مسلم اُمہ کو کبھی راس نہیں آیا، چودہ صد سالہ تاریخ اس کے خلاف ایک مستحکم دلیل ہے کہ کامیابی نے ہمیشہ اس وقت مسلمانوں کے قدم چومے ہیں، جب اُنہوں نے ہر میدان میں اپنے دین کو گلے لگایا، نظریۂ جہاد کو اپنایا اور اللہ کی بندگی اختیار کی۔ مسلمانوں کی بہترین اور فلاحی ریاستیں آج اور ماضی میں بھی اللہ کی بندگی پر کار فرما ہو کر ہی مثالی ریاستیں قرار پائیں، آج انہی خلافتوں کے احیاء کو ہر مسلمان تڑپتا ہے۔ جبکہ کفار نے اپنےمنحرفہ مذاہب پر عمل کر کے، جو الہامی کتابوں میں تحریف کے بعد دراصل ان کے اَحبار و رہبان کی خواہشات تھیں، تاریخ کے ہر موڑ پر ذلت و ُسوائی اُٹھائی ہے اور آج بھی ایسے مذہب سے جان چھڑا کر یہودی و عیسائی ایک محدود دنیوی غلبہ اور کامیابی سے متمتع ہو رہے ہیں اور ہم اپنے مذہب کو ترک کر کے ذلیل و رسوا ہیں۔ صدیوں کی اس مستحکم شہادت کے باوجود بھی کوئی مسلمان کیونکر سیکولرزم کا شیدائی ہو سکا ہے۔ ہمارا ماضی اور حال دین اسلام کے عین منزل من اللہ ہونے کی اہم ترین دلیل ہے!! جدید دنیا کا یہ عظیم ’نعرۂ سیکولرزم‘ آج ہمارے معاشروں کا اہم ترین مسئلہ ہے، جو مذہب کی نفی کی بجائے مذہب کو انتہائی محدود تر کر دینے کا فلسفہ ہے، نہ صرف اسلام بلکہ تمام مذاہب کو ایک مخصوص دائرہ میں مساوی مقام و حیثیت دینے کا نظریہ ہے۔ معاشروں کی تعمیر معاشروں کے اہل علم و فضل کرتے ہیں، اسی لئے آج اس نظریہ کے خلاف کام کرنے والی درسگاہیں اور ان کے فضلاء پریشان ہیں، لیکن آخر کار محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثا کو کتاب و سنت کی الہامی ہدایت اور روحانی قوت کو ہاتھ میں لے کر معاشروں کو اپنی اساسات پر لانے کے لئے جدوجہد کرنا ہو گی، ان چیزوں کو دیکھ کر مسلم عوام کو اس کی تلقین کرنا اور اپنے ساتھ ملانا ہو گا۔ یہ منزل اجتماعی کاوش سے آسان تر ہو جائے گی، وگرنہ راستہ یونہی دشوار گزار اور کٹھن رہے گا اور ہماری بہترین مساعی کے باوجود معاشرہ روز بروز گمراہیوں کے اندھیرے غار میں اُترتا جائے گا۔ پس چہ باید کرد؟ مسلم معاشرہ کو اس کی اصل اساسات پر جن پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قائم کر گئے تھے اور جسے مغربی تہذیب سے قبل کوئی فکری، نظریاتی یا عسکری قوت تہ و بالا نہ کر سکی تھی، لوٹانے کے لئے صرف علمی تحریک ہی کافی نہیں۔ اسی مقصد کے لئے معاشرے میں اصلاحی، سیاسی اور جہادی قوتیں بھی کار فرما ہیں۔ جن کا نظریہ ہے کہ مطلوبہ معاشرہ کی تشکیل اس دور میں فکر و نظر، تعلیم و تلقین اور بحث و مباحثہ کی بجائے مرکزِ قوت کی اصلاح اور ان پر قبضہ و اقتدار جمانے کے بعد ہی ممکن ہو گی۔ اس باب میں متعدد نظریات موجود ہیں لیکن اس امر میں کوئی شبہ