کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 111
حاکمیت اور اللہ کی حاکمیت کے مابین ایک حد فاصل اور اپنے تئیں مفاہمت کرا دی گئی اور اس کے بعد سے مغری فکر و نظریہ کی بنا پر قائم ہونے والی تمام دنیا اسی نظریے کی عملی تطبیق بن گئی۔
یہ نظریہ مغرب کا اساسی اور مستحکم ترین نظریہ ہے جس کی داخلی ضرورت یہ ہے کہ اس طرح حکمران طبقہ کی حاکمیت بھی برقرار رہتی ہے اور مذہب کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کر کے اللہ کی حاکمیت کو محدود کرنے کا موقع بھی اُنہیں مل جاتا ہے۔ دنیا بھر حتیٰ کہ مسلم دنیا میں بھی مذہب کی بنا پر مسلم معاشرت کو جاری و ساری کیوں نہیں کیا جاتا، اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس سے انسانوں کی حاکمیت پر قدغنیں لگ جاتی ہیں اور اُنہیں بھی اللہ کے احکامات کے تابع ہونا پڑتا ہے کیوں کہ یہ اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقہ اپنی من مانی اور حکومت کے تحفظ کے لئے کسی بھی مسلم معاشرے میں اسلامی اساسات کو استحکام دینے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ اگر سعودی معاشرہ میں آج کے برعکس ایک مثال موجود ہے تو اس کا ایک طویل تاریخی پس منظر اور ان پر یہ اللہ کی خاص رحمت ہے جبکہ سعودی حکمران معاشرے میں شریعت کی عملداری اور علماء کی قدر و منزلت سے خائف رہتے اور اس بنا پر عوامی عتاب کا نشانہ بھی بنے رہتے ہیں کیونکہ اسلامی معاشرے کا محور ایک انسان (حکمران / بادشاہ) یا متعدد انسانوں (جمہوریت) کی حاکمیت کی بجائے فقط ایک اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی ہے جس کا حکمران (خلیفہ) بھی پابند ہوتا ہے۔
الغرض سیکولرازم مغربی تہذیب کا سب سے خطرناک وار ہے جس میں حد بندی کے نام پر زندگی کے وسیع تر دائرے کو مذہب کی حاکمیت سے نکال کر ریاست کے نام پر انسانوں کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم بھی اسی ریاستی جبر و اسبداد کا شکار ہیں اور ان کے فضلا اسی ریاست کے طے کردہ ڈھانچوں کے رہین و اسیر ہیں۔
دنیا آج سیکولرزم کے نظریے کے سحر میں ڈوبی ہوئی ہے، اور اس کو ایک بڑا متوازن و مہذب اور رواداری و مفاہمت پر مبنی توازن قرار دیتی ہے۔ اگر تو دنیوی سہولت اور عیش پرستی مطمح نظر ہوں تو ممکن ہے کہ سیکولرزم دنیوی مسائل میں کمی کر سکے، البتہ اگر دنیا میں آمد کا مقصد اللہ کی بندگی اور آخرت کی تیاری ہو، تب سیکولرزم دنیوی تعیش سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یوں بھی دنیا کے لاکھ دعوے کے باوجود آج بھی انسایت مذہب کی بنا پر ہی عالمی طور پر منقسم اور باہم نبرد آزما ہے۔ الکفر ملة واحدة آج بھی دنیا کی ایک مسلمہ حقیقت بن کر اُمتِ مسلمہ اور اس کے وسائل کو ہڑپ کرنے کے درپے ہیں۔ ان حالات میں اس بودے دعوے کی کیا گنجائش رہ
[1] مغرب کا یہ دعویٰ کہ لبرل سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار اور اسی لئے Tolerant ہوتی ہے، ایک جھوٹا دعویٰ ہے، کیونکہ خیر کے معاملے میں غیر جانبداری کا رویہ ممکن ہی نہیں (اس نقطے پر ذرا تفصیلی گفتگو ’اسلام اور ہیومن رائٹس‘ کی بحث میں ہوگی)۔ مختصراً یہ کہ لبرل جمہوری ریاست بھی ایک مخصوص تصورِ خیر کو تمام دیگر تصوراتِ خیر پر بالاتر کرنے کی ہی کوشش کرتی ہے اور وہ تصورِ خیر ’آزادی‘ ہے، یعنی یہ تصور کہ تمام تصوراتِ خیر مساوی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا کہ تمام تصوراتِ خیر مساوی ہیں غیر جانبداری کا رویہ نہیں بلکہ بذاتِ خود خیر کا ایک مستقل مابعد الطبعیاتی تصور ہے کہ ’اصل خیر تمام تصوراتِ خیر کا مساوی ہونا ہے۔‘ اور اسی تصورِ خیر کے تحفظ اور فروغ کی لبرل جمہوری دستوری ریاست پابند ہوتی ہے۔ یہ سمجھنا کہ لبرل جمہوری ریاست کوئی tolerant ریاست ہوتی ہے، ایک فریب ہے، کیونکہ اپنے دائرۂ عمل میں یہ صرف اُنہیں تصورات خیر کو برداشت کرتی ہے جو اس کے اپنے تصورِ خیر (یعنی تمام تصوراتِ خیر کی مساوات و لایعنیت ) سے متصادم نہ ہو، اور ایسے تمام تصوراتِ خیر جو کسی ایک چاہت کو بقیہ تمام چاہتوں سے بالاتر سمجھ کر اس کی برتری کے قائل ہوں، ان کی بذریعہ قوت بیخ کنی کردیتی ہے جس کی مثال طالبان کی حکومت پر بمباری سے عین واضح ہے۔ درحقیقت خیر کے معاملے میں لبرل جمہوری ریاست بھی اتنی ہی dogmatic (راسخ العقیدہ ) اور intolerant (ناروادار) ہوتی ہے جتنی کوئی مذہبی ریاست، کیونکہ دونوں ہی اپنے تصوراتِ خیر سے متصادم کسی نظرئیے کی بالادستی کو روا نہیں رکھتیں۔ خوب یاد رہے کہ تمام تصوراتِ خیر کی لایعنیت کا مطلب غیر جانبداری نہیں بلکہ مساوی آزادی (سرمائے کی بالادستی) بطورِ اصل خیر کا اِقرار ہے۔ یہ اسی کا مظہر ہے کہ پختہ (matured) جمہوری ریاستوں میں ارادۂ انسانی یعنی اس کے حق کی بالادستی تمام دیگر تصوراتِ خیر پر غالب آجاتی ہے اور کسی مخصوص خیر کی دعوت دینا ایک لایعنی اور مہمل دعوت بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی ریاستوں میں آپ کسی مخصوص خیر (مثلاً مذہبیت) کے اظہار کو ’بطور ایک حق ‘ کے پریکٹس (Practice) تو کرسکتے ہیں مگر اسے دیگر تمام تصوراتِ خیر اور زندگی گزارنے کے دوسرے طریقوں پر غالب کرنے کی بات نہیں کرسکتے کہ ایسا کرنا ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہے۔