کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 110
معاشرتی مظاہر اس وقت عالم کفر کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں اور اِنہی سے مسلم اُمہ کے احیاء کی تحریک پھر سے زندہ ہو سکتی ہے۔ کتاب و سنت کو سیکھنے سکھانے والے کسی وقت اُمت کے رجوع الیٰ القرآن کا سبب بن سکتے ہیں اور کفر کے سامنے مزاحمت کرنے والے کسی وقت اُمہ کی سوئی ہوئی غیرت و حمیت کو جگا کر اپنے ساتھ کھڑا ہونے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔ مغرب کا اساسی نظریہ؛ دین و دنیا کی تفریق: اس موضوع کے اختتام سے قبل یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ معاشرے کی دو سب سے بنیادی طاقتیں ہیں، ایک مذہب اور دوسری ریاست۔ مذہب کو دیگر علوم کے مساوی ایک معمولی حیثیت دینا اس کے مقام سے انحراف ہے بلکہ مذہب انسان کا پہلا حوالہ اور اس کی ہر لمحہ کی شناخت ہے۔ یہی کسی قوم کا بنیادی تعارف ہے اور اسی بنا پر ہمیشہ سے عسکری جارحیتیں ہوتی رہیں اور آج بھی ہو رہی ہیں۔ مذہب ہی دین و دنیا کی کامرانی کا محور ہے۔ اس بنا پر مذہب کو محض ایک علمی حوالہ بنا دینا یا معاشرے میں دیگر میدانوں کی طرح اس کو بھی ایک دائرۂ کار تک محدود کر دینا الحادی معاشرہ کی سنگین زیادتی ہے۔ مغرب کی نام نہاد ’احیائے علوم کی تحریک‘ دراصل مذہب سے اِنحراف کی تحریک ہے جس کی اساس علوم کو وحی و اِلہام سے منقطع کر کے تجربہ و مشاہدہ پر قائم و دائم کرنا (سائنس و مذہب کا معرکہ) اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر انسانوں کو اللہ کی بندگی سے نکال کر ذاتی خواہشات و مفادات کا اَسیر بنانا ہے۔ مغرب میں اس تحریک کی منطقی ضروریات اور اَسباب ایک علیحدہ موضوع ہیں، لیکن اس کے لازمی نتیجے کے طور پر مذہب کو اجتماعی دائروں سے نکال باہر کیا گیا، تاہم مذہب کی اس غیر معمولی اہمیت کی بنا پر جدید تہذیب کے فکری کار پردازان کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ اس کو کلی طور پر انسانوں کی زندگی سے خارج کر دیا جاتا کیونکہ نہ صرف یہ ہر انسان کی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے بلکہ اس سے انسان کا عمرانی رشتہ بھی صدیوں پرانا ہے۔ اس بنا پر مذہب و ریاست میں مفاہمت کا یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ مذہب کو فرد کی ذاتی زندگی کی حد تک اختیار کرنے کو گوارا کیا جائے جہاں وہ دوسرے شخص کے ساتھ تعلقات میں مخل نہ ہو اور معاشرتی میدان میں اس کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے کیونکہ یہ ریاست کا دائرۂ عمل ہے۔ یہی دین و دنیا کی تفریق (سٹیٹ اور چرچ میں جدائی) ہے جس کا طعنہ دینی مدارس کو دیا جاتا ہے جبکہ درحقیقت یہ سیکولرازم کا اساسی نظریہ ہے۔ اس طرح انسانوں کی
[1] جن مسلم مفکرین (مثلاً وحید الدین خان) کے خیال میں ’ہر حال میں قیام امن‘ اسلام کا اوّلین اُصول ہے وہ سرمایہ داری کو بطور ایک معاشرتی و ریاستی عمل اور ایک علمیت نہیں پہچانتے۔ ان مفکرین کے خیال میں حالت ’امن‘ گویا کسی نیوٹرل مقام کا نام ہے حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں، کیونکہ اصل سوال یہ ہے کہ’ ’امن کس اُصول کی بالادستی و غلبے پر قائم ہوا ہے؟‘‘۔ یہ مفکرین اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ اگر واقعی ہر حال میں امن اسلام کا اوّلین اصول ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کی درخواست کے باوجود صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دے کر مکہ پر حملہ کیوں کیا تھا؟