کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 108
افزوں ہو جائے کہ ملک میں موجود تمام تعلیمی ادارے بھی اس ضرورت کو فوری طور پر پورا کرنے پر قادر نہ ہوں جیسا کہ سعودی معاشرے میں علوم اسلامیہ کی یونیورسٹیاں پورے ملکی یونیورسٹیوں کا نصف سے بھی زائد ہیں اور ان کے فضلا کی کھپت کا کوئی مسئلہ ہی درپیش نہیں بلکہ لگاتار مزید کی ضرورت برقرار ہے۔
مدارس کے فضلا کے کردار کی محدودیت کا آج رونا پیٹا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ ہر سال فارغ ہونے والے اتنے سارے فضلا کیونکر معاشرے میں جذب ہو سکیں گے اور اس کے نتیجے میں ان کی دینی تعلیم کو محدود کرنے کی تلقین کی جاتی ہے، تو یہ بھی دراصل اسی سیکولرازم پر اعتماد اور درپیش حالات پر مطمئن ہو کر بیٹھ جانے کی تلقین ہے۔ یہ بات درست ہے کہ متروک راستوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور اُسوۂ حسنہ سے روشنی پا کر اپنا کردار متعین کرنا ایک محنت طلب کام ہے، لیکن اس کے بغیر مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی مدارس میں عبادات، باہمی اختلافات اور مذہبی رسوم و رواج کی تعلیم پر اکتفا کرنے کی بجائے پورے اسلام کی تعلیم دی جائے اور یہاں کے فضلا کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل شخص اور اجتماعی کردار سے روشناس کرایا جائے، ان صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج اصلاح کی تربیت دی جائے، دعوت و اصلاح کی دشوار گزار گھاٹیوں کو عبور کرنے کی مشق کرائی جائے۔ یہ گھمبیر مسئلہ دینی تحریکوں اور مسلم حکومتوں ہر دو کی توہ اور اصلاح کا متقاضی ہے۔ تعلیمی اداروں کو بھی اپنی تعلیم و تربیت کو ہمہ گیر کرنا ہو گا اور مسلم حکومتوں کو بھی کافرانہ معاشرت سے ممتاز ہو کر اسلامی معاشروں کو قائم کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔
جہاں تک اس مسئلہ کا شرعی پہلو ہے تو اس کی رو سے بھی علماء کی ضرورت اس وقت تک شرعاً محدود نہیں کی جا سکتی جب تک معاشرے میں غلبہ دین حاصل نہیں ہو جاتا۔ مسلم معاشرے کی دینی ضروریات کی کفالت اور تکمیل پوری مسلم اُمہ پر اصلاً فرضِ عین ہے۔ یہ فرض چند ایسے اہل افراد کی اس مشن پر کار فرمائی کے بعد رفع ہو کر فرضِ کفایہ بن جاتا ہے جو اُمت کو مطلوب رہنمائی دے لیں، بصورتِ دیگر یہ فرض تمام اُمت پر قائم رہتا ہے۔ اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہمارے معاشرے دین کے مطلوبہ معیار کو پہنچنا تو درکنار، روز بروز بڑی تیزی سے تنزل کی طرف گامزن ہیں، ایسے میں فضلائے مدارس کی تعداد کم کرنے کی تلقین کی بجائے، ان کی اہلیت کو بہتر کرنے اور معاشرہ کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے، وگرنہ دین و دنیا کی یہ تفریق ہی ہمارا مقدر رہے گی اور ذلت و اِدبار کے سوا مسلم معاشروں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔