کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 106
کاوشوں کا کل ارتکاز ان علوم کی مزید تعلیم تک ہی منحصر ہے اور دیگر مغربی علوم کے بالمقابل عملی میدان میں اُنہیں کھپانے کی کوئی گنجائش میسر نہیں ہوتی۔ قانون و معیشت کی جدید تعلیم حاصل کرنے والے فضلا تو نہ صرف عملی زنگی میں اس علمی صلاحیت کی بنا پر متعدد مصروفیات اختیار کر سکتے ہیں بلکہ مزید تعلیم کے لئے تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہو جاتے ہیں، اس کے بالمقابل مدارس کو تو ایک طرف چھوڑئیے، یونیورسٹی یا کسی سرکاری کالج کا علوم اسلامیہ کا سند یافتہ علوم اسلامیہ کے ہر پہلو پر حاصل کردہ اپنے علم کا مصروف اس سے زیادہ نہیں پاتا کہ وہ ان کی آگے مزید تدریس کر سکے۔ کسی علم کو تدریس تک ہی محدود کر دینا اور معاشرتی عمل میں استعمال میں نہ لانا اس رویہ کا غماز ہے کہ اربابِ اختیار کے پیش نظر محض اس کا تحفظ و وجود ہی مطلوب ہے، نہ کہ اس کی بنا پر اپنی اجتماعی و انفرادی زندگیوں کی تشکیل کرنا؛ یہی وجہ ہے کہ اس حد تک علوم اسلامیہ غیر مسلم ممالک کے تعلیمی اداروں میں بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ اسلام کو عملی و معاشرتی تشکیل سے نکال کر محض تعلیم و تعلّم تک محدود کر دینا انتہائی ظالمانہ رویہ ہے!!
آج دین و دنیا کی جس تفریق کا رونا رویا جاتا ہے اور اس کی وجہ دو نام ہائے تعلیم کو قرار دے کر، اُنہیں باہم متصادم باور کیا جاتا ہے، در حقیقت اس کی وجہ ان نظام ہائے تعلیم سے کہیں زیادہ ان ریاستی اقدامات میں پوشیدہ ہے جو طبقہ اختیار نے سیکولر تصورات کی بنا پر بزورِ جبر لاگو کر رکھے ہیں۔ دین و دنیا کے یہ دو واضح دائرے نہ تو ہمارے علمی اداروں کا فیض ہیں اور نہ ہی ہمارے دین کی عطا بلکہ ہمارا دین تو اسلام کی بنا پر زندگی کے ہر مرحلے کو تشکیل دینے کا پرزور داعی ہے جس کے نتیجے میں کسی مسلمان کا دین کی روشنی میں دُنیوی زندگی کی اصلاح کے لئے اُٹھایا جانے والا ہر قدم بھی آخر کار دین ہی ٹھہرتا ہے۔ اس بنا پر ہمارے سنجیدہ فکر حضرات کو ظاہری علامتوں کی بجائے نام نہاد مسلم معاشروں کی عمرانی ساخت اور اس کو قائم کرنے کے لئے حکومتی اقدامات پر توبہ دینے کی ضرورت ہے۔
نصاب میں ترمیم یا معاشرہ کی اسلامی تشکیل:
اس سلسلے میں محض دینی مدارس میں سماجیات کی تعلیم ہی مسئلہ کا حل نہیں جیسا کہ بعض اہل دانش کا خیال ہے بلکہ موجودہ منظم و منضبط معاشرہ کی اسلامی تشکیل اور اس کو اسلامی تقاضوں کے مطابق اُستوار کرنا ہو گا۔ کیونکہ دینی مدارس کے طلبہ کو جدید و سماجی علوم کی تربیت دے بھی دی
[1] مضمون کا یہ حصہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین ’ رواداری کا غیر اسلامی تصور ‘ ( تفہیمات جلد دوم ) اور ’ اسلام میں مرتد کی سزا ‘ سے ماخوذ ہے۔
نہی عن المنکر کے ضمن میں درج ذیل احادیث نظریۂ رواداری کی حقیقت خوب واضح کرتی ہیں : ((من رأیٰ منکم منکرًا فلیغیّرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف الایمان)) ( صحیح مسلم:۴۹ )’’تم میں سے جو کوئی بھی برائی دیکھے تو اسے چاہئے کہ اسے اپنے ہاتھ (یعنی طاقت ) سے روک دے، اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے ایسا کردے، اگر اس کی استطاعت بھی نہیں رکھتا تو اپنے دل سے ایسا کردے (یعنی تہ دل سے اسے برا جانے اور اس بات کا پختہ تہیہ رکھے کہ جب کبھی زبان اور ہاتھ سے اسے روکنے کی استطاعت آجائے گی تو روک دوں گا)، اور یہ (یعنی دل سے اسے ایسا کرنا) تو ایمان کا سب سے کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘
تقریباًیہی بات زیادہ تاکیدی انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بھی ارشاد فرمائی :
((ما من نبـي بعثہ ﷲ في أمۃ قبلي إلا کان لہ من أمتہ حواریون وأصحاب یأخذون بسنتہ ویقتدون بأمرہ، ثم إنہا تخلف من بعدھم خلوف یقولون ما لا یفعلون ویفعلون ما لا یؤمرون، فمن جاھدھم بیدہ فھو مؤمن، ومن جاھدھم بلسانہ فھو مؤمن، ومن جاھدھم بقلبہ فھو مؤمن، ولیس وراء ذلک من الإیمان حبۃ خردل)) ’’مجھ سے پہلے اللہ نے جس اُمت میں کسی نبی کو مبعوث فرمایا تو اس کی اُمت میں ایسے حواری ہوتے تھے جو اس کی سنت کو مضبوطی سے تھامتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے، پھر ان (حواریوں ) کے بعد ان کے ناخلف جانشین آ جا تے تھے جو کہتے تھے وہ کرتے نہیں تھے، اور کرتے وہ کام تھے جن کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ تو جو کوئی ایسے (نا خلف ) لوگوں سے جہاد کرے گا اپنے ہاتھ سے پس وہ مؤمن ہے، اپنی زبان سے پس وہ مؤمن ہے، اپنے دل سے پس وہ مؤمن ہے، اور اس کے بعد تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔‘‘(صحیح مسلم) ان احادیث میں واضح طور پر ایسے شخص کے قلب سے ایمان کی نفی فرمائی گئی ہے جو دل سے بھی برائی کو برائی نہ سمجھتا ہو، اسے دیکھ کر اس کے دل میں تکلیف اور رنج نہ ہو اور اسے ختم کردینے کا ارادہ؍داعیہ بھی نہ پیدا ہو۔ اسی طرح ایک صحابی نے جب ایمان کی نشانی پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب نیکی کرنے سے تجھے خوشی ہو اور برائی سے غم و رنج ہو تو تو مؤمن ہے۔‘‘(صحیح مسلم:۵۰)