کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 104
کر دیا اور معاشرتی میدانوں میں اسلامی تقاضوں کو معطل کر دیا۔ نتیجتاً مقبوضہ علاقوں کے مسلمان باشندوں نے بھی ان موضوعات پر اپنے دین سے رہنمائی لینا ترک کر دی اور یہاں کے علمائے کرام بھی اپنے اس محدود کردار پر ہی انحصار کر گئے۔ مسلم ممالک کی آزادی کے ساتھ اس صورتحال میں تبدیلی آنا انتہائی ضروری تھا لیکن دورانِ غلامی ایسا طبقہ وجود میں لایا گیا تھا جو مغربی نظریات کا تربیت یافتہ اور فکرِ الحاد کا اسیر تھا، مزید برآں یہاں سے ظاہری روانگی سے قبل سامراج اپنے ایجنٹوں کو یہاں مسلط کر گیا اور مسلم معاشروں میں مطلوبہ تبدیلی واقع نہ ہو سکی!!
جہاں تک اسلام کی معاشرتی ہدایات کا تعلق ہے تو قرآن و سنت میں فرد کی تربیت و اصلاح کے ساتھ معاشرے کو دین پر قائم کرنے کی ضرورت کو بھی بڑی شدت سے اُجاگر کیا گیا ہے اور اس کے تفصیلی احکامات موجود ہیں۔ مسلمانوں کی سیاست و عدالت، معیشت و معاشرت اور تعلیم و ابلاغ کا کیا منہج ہونا چاہئے، اس کی تفصیلات پر کتبِ حدیث و فقہ میں براہِ راست بیسیوں اَبواب موجود ہیں اور قابل ذکر امر یہ ہے کہ اسلام کا حقیقی امتیاز اور مروّجہ تہذیب و معاشرت سے برتری سماجیات (سوشل سائنسز) کے انہی میدانوں میں ہے جس کو مسلم معاشروں میں نسیاً منسیاً کیا جا چکا ہے۔ اسلامی احکامات میں فرد سے ادائیگیٔ فرض کا تقاضا کیا جاتا ہے لیکن اس کی برکات مسلم اجتماعیت و معاشرت بحال ہونے کی صورت میں ہی حاصل ہوتی ہیں۔ بطورِ مثال صلوٰۃ وزکوٰۃ ایک انفرادی حکم ہے لیکن ان احکامات کی بجا آوری مسلم معاشرے کو ہمدردی، حسن تعلق اور باہمی کفالت کے کیسے قیمتی رویوں سے روشناس کراتی ہے اور اس کے نتیجے میں مسلم اُخوت کس طرح پروان چڑھتی ہے، ایسا مسلم معاشرت کے نافذ العمل ہو جانے کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے۔ سود، انشورنس اور جوئے کی حرمت یا اسلامی عقوبات بظاہر کڑی پابندیاں لگتی ہیں، لیکن اس کے معاشرے پر مثبت اَثرات اہل نظر سے مخفی نہیں!
افسوس کہ ہمارے اہل علم و دین حضرات اس وقت اسی رُشد و ہدایت پر قانع ہوئے بیٹھے ہیں جس کی اجازت ہمارے سیکولر معاشروں نے ہمیں دے رکھی ہے۔ اُنہوں نے اسی کردار پر اکتفاء کر رکھا ہے جو دو رکعت کی امامت کا کردار ان کو ان سیکولر حکومتوں نے عطا کر دیا ہے۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثتِ علمی کے دعوےداروں کو تو معاشرے کا قائد بننا تھا، اور یہ قیادت عبادات و عقائد سمیت جملہ معاشرتی میدانوں میں بھی اسلامی احکامات کو زندہ و تابندہ کئے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں معلوم ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم مکہ و مدینہ میں مسلمانوں کی عبادات کے ہی