کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 103
اگر آپ معمولی غور و فکر سے کام لیں تو تعلیم اور معاشرے کے بارے میں پیش کردہ ان نظریات کی پاکستانی معاشرے میں کار فرمائی آپ بخوبی محسوس کر سکتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ چند برسوں سے دین اور اہل دین کے لئے روز بروز اجنبی ہوتا جا رہا ہے۔ ریاستی اقتدار کے بل بوتے پر گذشتہ برسوں میں اہل دین کو لگاتار اس طرح نشانہ بنایا گیا ہے کہ اس کے پورے معاشرے پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں : ایک طرف مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کی تعداد میں خاصی کمی آئی ہے تو دوسری طرف ممتاز و مخلص علما ہمارے معاشرے سے روز بروز عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ علم و ارشاد کی مسندیں ویران ہیں اور چند برس قبل پائے جانے والے عظیم اساطینِ علم کا شدید فقدان ہے۔ معاشرے کی سیکولرائزیشن کے سبب جوں جوں معاشرے کی حقیقی دینی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے، توں توں مخلص اہل دین ناپید ہو رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اہل دین کے لئے معاشرے میں مطلوبہ کردار کو پورا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بنا دیا گیا ہے۔
اگر مسلم دنیا کے معاشروں کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو پاکستان سمیت اس وقت تمام مسلم دنیا کے معاشرے سیکولر بنیادوں پر قائم ہیں اور سعودی عرب ہی وہ واحد سرزمین ہے جہاں اسلامی معاشرت کی بہترین ’میسر مثال‘ موجود ہے جو عراق میں امریکی تسلط اور شدید عالمی دباؤ کے بعد بڑی تیزی سے رو بہ تنزل ہے۔ مذکورہ بالا اندیشے سعودی عرب میں تاحال شدید نہیں ہوئے اور وہاں کے علمائے کرام نہ صرف معاشرے کی مطلوبہ رہنمائی کا فریضہ بخوبی انجام دے رہے ہیں بلکہ ان کی قدر و منزلت بھی غیر معمولی طور پر مستحکم ہے اور وہ اپنے معاشروں کی قیادت کر رہے ہیں۔ اس کے بالمقابل دیگر مسلم دنیا میں حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دینی صورتحال انتہائی ابتر ہے جس میں اُمید کی واحد کرن ان معاشروں کے افراد بالخصوص نوجوانوں کا ذاتی طور پر دین کی طرف روز بروز بڑھنے والا رجوع ہے۔
فضلائے مدارس کا مطلوبہ معاشرتی کردار:
معاشروں کی ہمہ جہتی اصلاح ایک عظیم کام ہے، لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک علمائے کرام کے مطلوبہ معاشرتی کردار کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر نہ کیا جائے۔ ماضی میں مسلم سر زمین پر قبضہ کر لینے والے استعمار نے بزورِ قوت ترقی کے نام پر ہمارے معاشروں کو ان کی دینی اساس سے محروم کر کے خالصتاً اِلحادی بنیادوں پر قائم اور جاری و ساری