کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 102
معاشرہ کی تشکیل میں باصلاحیت اور صاحبِ علم حضرات اساسی کردار رکھتے ہیں۔ کیونکہ معاشرہ دراصل انہی لوگوں کا نام ہے اور انہی کے نقش قدم پر چلتا ہے۔ البتہ ریاستی ادارے کی ترقی واستحکام کے بعد قابل افراد کی یہ تیاری فطرت ضروریات اور دینی تقاضوں پر منحصر ہونے کی بجائے زیادہ تر ریاستی اقدامات کی ہی مرہونِ منت ہو گئی ہے۔ ریاست پر قابض طبقہ اپنے مخصوص اہداف کے لئے تعلیمی ادارے پروان چڑھاتا اور ایسے فضلا کے لئے ترقی کے امکانات فراہم کرتا ہے جو اس کے مفادات، ضروریات یا نظریات سے ہم آہنگ ہوں۔ اس مقصد کے لئے وہ مقابل میں ایسے بہت سے فضلا کی کھیپ میسر کر دیتا ہے جو ریاستی سرپرستی سے بھرپور طور پر متمتع ہوں جس کی وجہ سے ریاست کو قابل اَذہان بڑی تعداد میں میسر آجاتے ہیں۔ اور فطری و دینی ضروریات کے تحت معاشرہ کی تشکیل کرنے والے محبِ دین و ملت فضلائے مدارس کے بالمقابل ایسے فضلاء زیادہ دُنیوی کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ الغرض ہر دو قسم کے فضلائے مابین مخصوص نوعیت کے معاشرہ کی تشکیل کے لئے لگاتار کوششیں ہوتی رہتی ہیں اور دونوں باہم نبرد آزما رہتے ہیں۔
مسلم معاشروں پر سیکولر اثرات:
جوں جوں کسی بھی مادی طور پر ترقی یافتہ یا دوسرے الفاظ میں سیکولر معاشرے میں نظم و ضبط اور استقرار و استحکام بڑھتا جائے گا، توں توں اس معاشرے میں دین کا کام کرنا مشکل تر ہوتا جائے گا۔ دیہاتی (جدید اصطلاح میں ’غیر متمدن‘) معاشرے جدید شہروں کے مقابلے میں دینی سرگرمیوں کو وسیع تر گنجائش فراہم کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ لاہور اور فیصل آباد یا گوجرانوالہ جیسے شہروں میں دینی سرگرمیوں کا تقابل کرنے پر بخوبی واضح ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی لا دین معاشرے میں اہل دین سے توقع رکھے جانے والے تقاضے بھی روز افزوں ہوتے ہیں۔ ان کے لئے اصلاحِ احوال کے اہداف تو روز بروز بڑھتے جاتے ہیں لیکن ان کے پیش نظر مشن میں آگے بڑھنا مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ اس کے بالمقابل سادہ یا اسلامی معاشروں میں اہل دین کا اعزاز و وقار اور ان کے لئے کام کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے اور معاشرے کے دیگر عناصر نہ صرف ان کی خدمات کی معاونت کرتے ہیں بلکہ ان عناصر کی بنا پر دینی کام کے تقاضے بھی قابل عمل ہوتے جاتے ہیں۔
[1] یہی وجہ ہے کہ جب شہر لاہور میں ہونے والی عورتوں کی حیا باختہ میرتھن ریس کے خلاف دینی تحریکوں اور علماء کرام نے احتجاج کیا تو جدیدیت کے دل دادہ صدر مشرف نے یہ کہا تھا کہ جو میرتھن نہیں دیکھنا چاہتے وہ اپنا ٹی وی بند کرلیں، مگر اُنہیں دوسروں پر تنقید کرنے کا حق حاصل نہیں۔
[2] ٹولرنس کے فلسفے کے تحت قائم ہونے والے معاشروں میں کس کس قسم کے اعمال اور اظہار ذات کے کن کن ممکنہ طریقوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ چند ماہ قبل ہونے والے ان دو واقعات سے لگائیں۔ امریکہ میں ایک عورت کو چوبیس گھنٹے میں کئی سو مردوں کے ساتھ ’بدکاری کا عالمی ریکارڈ ‘ بنانے کے ’اعزاز‘ میں انعام سے نوازا گیا۔ اسی طرح امریکہ میں پانچ ہزار سے زیادہ مردوں اور عورتوں نے مکمل برہنہ حالت میں سڑکوں پر احتجاجی جلوس نکالا۔ یہ ہے ٹولرنس کا اصل مفہوم اور پس پردہ کارفرما جذبہ، العیاذ باللہ من ذٰلک