کتاب: محدث شمارہ 331 - صفحہ 101
اختیار کرنے سے مشروط ہے۔ درسگاہیں تو محض اپنے طلبہ کو کسی علم کا دروازہ کھولنے اور اس فن کے ماہرین کے خیالات سے استفادہ کرنے کی بنیادی صلاحیت پیدا کرتی ہیں۔ درسگاہوں میں حاصل کی جانے والی تعلیم کسی بھی تعلیم کی مسلمہ معلومات کا نچوڑ ہوتی ہے جس کو عملی زندگی میں اختیار کرنے کے بعد ہی انسان اس کو اپنی شخصیت کا حصہ بناتا، اپنی ذاتی کاوش سے اس میں پختگی لاتا اور حالات کی ضرورت کے مطابق اس میں مزید ارتقائی منزلیں طے کرتا ہے۔ چنانچہ کوئی شخص اگر سائنس کا علم نہ صرف یہیں تک رُک جائے گا بلکہ روز بروز نظر انداز ہوتاجائے گا، یہی صورتحال دینی تعلیم کی بھی ہے۔ تاہم دینی تعلیم کے میدان میں تعلیم حاصل کرنے سے بڑھ کر کہیں سنگین مسئلہ اس تعلیم کا معاشرتی دھارے میں استعمال ہے۔ سینکڑوں لوگ دینی تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن بعد از فراغتِ علم ان کی کاوشوں کا محور کیا ہو گا؟ اس صورتحال سے حیران و پریشان ہو کر آغاز میں ہی لوگ یہ بھاری پتھر اُٹھا کر رکھ دیتے ہیں۔ الغرض دینی مدارس کو اس وقت تحصیل علم اور اس میں مطلوبہ مہارت سے بڑھ کر اپنے فضلا کے مستقبل کی مفید مصروفیت کا سنگین مسئلہ در پیش ہے!!
تعلیم پر معاشرہ کا یہ جبر دورِ حاضر کا یک مسلمہ ہے۔ ماضی کے سادہ معاشروں میں کسی میدان میں قابل افراد کی تیاری ان کے لئے اس میدان میں ذاتی قابلیت کے بل بوتے پر اپنا راستہ آپ بنانے کا امکان پیدا کر دیتی تھی، لیکن جب سے معاشروں کی تشکیل اور رجحانات پر جدید ریاستی اداروں نے غلبہ جمایا ہے اور افرادِ معاشرہ کی چند بنیادی ضروریات کی کفالت کے نام پر تشکیل پانے والا ادارۂ ریاست، اپنے عوام کے ہر مرحلہ زندگی میں دخل اندازی کر کے، حکومتی اقتدار و اختیار کے بل بوتے پر، معاشرے کے ہر پہلو میں اپنا تسلط گہرا کر رہا ہے، تب سے معاشرے پر مخصوص نوعیّتوں کے تعلیم یافتہ افراد کو اپنا مطلوبہ معاشرہ خود سے تشکیل دے لینے میں شدید دقت پیش آرہی ہے۔ اور یہ مشکل اس وقت مزید دو چند ہو جاتی ہے جب بین الاقوامی جبر و استعمار اور علاقائی حکومت دونوں کا براہِ راست نشانہ ہمارا دین بن جائے اور اُن کا ہر وار براہِ راست ہماری اساسات پر ہو تو ایسے حالات میں مسلمانوں کے معاشرے میں دین کی شدید ضرورت کا احساس ہونے کے باوجود دینی علوم کے ماہرین کے لئے مطلوبہ تقاضوں کے مطابق معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا مشکل تر بن جاتا ہے۔
[1] لبرل سیکولرازم عیسائی سیکولرازم سے مختلف شے ہے۔ عیسائیت بھی ایک سیکولرازم قائم کرتی ہے جہاں وہ کہتی ہے کہ بادشاہ کا ایک علاقہ ہے اور پادری کا دوسرا، مگر وہ برداشت کے اس تصور کی بالکل قائل نہیں کہ اقدار کی ذاتی ترتیب غیر اہم ہے۔ اس کے مقابلے میں لبرل سرمایہ دارانہ سیکولرازم کے اندر ذاتی اقداری ترتیب کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں رہتی، اسی لئے اس سیکولرازم کے اندر مذہب کا پنپنا ممکن نہیں رہتا اور نہ ہی یہ مذہب کے معاشرتی و ریاستی اظہار کو برداشت کرتی ہے۔ عیسائی سیکولرازم بادشاہ کو ایک محدود دائرہ فراہم کرتی ہے جس کے اندر اس کے اختیار کو تسلیم کیا جاتا تھا مگر بالادست تصور اتِ خیر اور عدل عیسائی تصوراتِ خیر اور عدل ہی تھے۔