کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 9
ناجائز بنا دیا ہے بلکہ اس سے پاکستان کے استحکام کو بھی خطرے میں ڈالنے کا مذموم ہدف پورا کروا رہا ہے۔آپریشن کے ابتدائی ایام میں ہماری حکومت جوابی مزاحمت اور امریکہ میں اس تعلق کی نشاندہی کرنا قرین مصلحت نہیں سمجھتی تھی، بلکہ ہر ظلم کو براہ راست اسلام کے نام لیوا طالبان کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا تھا،لیکن گذشتہ دنوں حکومت نے ان طالبان کے پاس نیٹو کا اسلحہ ہونے کا اقرار کیا ہے، ۵ جون کے اخبارات میں وزیر داخلہ کا بیان موجود ہے کہ طالبان کی مزاحمت کے پیچھے منصوبہ ساز دماغ کوئی اور ہے۔ امریکہ اور دنیا بھر کے کفار کے لئے ابلاغی جنگ سب سے آسان ہے، پھر دوسروں کو مالی لالچ دے کر اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا بھی مشکل نہیں ۔ سب سے مشکل بلکہ ناممکن کام ان کے لئے بذات خود مسلمانوں سے دوبدو جنگ کرنا ہے جس سے امریکی اور نیٹو فوجی ڈرتے ہیں ۔ ان حالات میں پاکستان میں جاری مخاصمت، جو دراصل انتقامی بنیادوں پر استوار ہوئی تھی، اس میں اپنے ایجنٹ داخل کرکے امریکہ نے ڈالروں کے بدلے لڑنے والے بھی حاصل کرلیے ہیں اورخود عملاً جنگ سے باہر بیٹھ کر محض منصوبہ بندی اور غداری کے ذریعے اپنے مذموم اَہداف کی تکمیل کی جارہی ہے۔ پاکستان کے لئے امریکہ کی موجودہ حکمت ِعملی کی سادہ مثال یہ ہے کہ کچھ عرصے سے امریکہ بلوچستان میں القاعدہ قیادت کے چھپے ہونے کا مغالطہ دے کر پاکستانی حکومت سے بلوچستان میں بھی ڈرون حملے کرنے کے لئے شدید دباؤ ڈال رہاہے۔ اگر حکومت نے امریکہ کی مکاری اور چالبازی کو نہ سمجھا یا وقتی مفاد اور شدید دباؤ کے پیش نظر بلوچستان میں امریکہ کو ان حملوں کی اجازت دے دی تو اس صوبہ کی صورتحال بھی سرحد سے مختلف نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ بلوچستان میں حکومت نے پہلے ہی امریکی فوج کو کئی ہوائی اڈے دیے ہوئے ہے، یہی وہ صوبہ ہے جو معدنی وسائل سے مالا مال اور گرم پانیوں تک رسائی رکھتا ہے۔ افغانستان میں اپنے قیام کے بعد وسط ایشیائی ریاستوں سے مکمل مفاد حاصل کرنے کے لئے امریکہ کو براہِ راست سمندر تک رسائی درکار ہے، اسی صوبہ کی اہم ترین سیاسی شخصیت نواب اکبر بگٹی کو پہلے