کتاب: محدث شمارہ 330 - صفحہ 80
دہشت گردی ہمسایہ ملک میں ہوتی ہے، پابندی یہاں مذہبی جماعتوں پر لگتی ہے اور وہ بھی بغیر ثبوت کے۔ ہمارا اپنا میڈیا جہاد، دہشت گردی، پردے کے احکامات، اسلامی سزاؤں کے قوانین اورخواتین کے حقوق کے بارے میں جوپراپیگنڈہ کررہا ہے، وہ بھی کوئی قابل ستائش نہیں بلکہ قابل صد افسوس ہے۔ اسی طرح وہ اسلامی ممالک جہاں اسلامی شرعی سزائیں نافذ ہیں اور انہیں بنیاد پرستی کا طعنہ دیا جاتا ہے جب کہ ان معاشروں میں عورت جس قدرمحفوظ ہے اس کا تصور مغرب کے آزاد معاشرے میں کیا بھی نہیں جاسکتا۔ سعودی عرب میں زیادتی کے واقعات بہت کم ہوتے ہیں ، جبکہ نیویارک میں ہرپانچ منٹ کے بعد عورت سے زیادتی کی واردات کی رپورٹ ہوتی ہے۔ عورتوں پر گھریلو تشدد میں امریکہ ویورپ مسلم دنیا سے بیسیوں درجے آگے ہیں ،کیا امریکہ بھی بنیادپرست ہے کہ وہاں عورتوں سے زیادتی وتشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے؟ اگر ایسا نہیں تو مغربی ممالک میں تمام تر مادر پدر آزادی کے باوجود عورتوں سے زیادتی کے واقعات اتنی بڑی تعدادمیں کیوں ہوتے ہیں ؟
بہرکیف موجودہ دور میڈیا کا دور ہے، میڈیا کی لگام مغرب کے ہاتھ میں ہے اور وہ میڈیا کے زور پر ہمارے ذہنوں پرچھایا ہوا ہے۔بنیاد پرستی کا پراپیگنڈہ اسی مہم کاحصہ ہے حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ مغرب اسلام کے احیا اور اسلامی ممالک میں عوامی سطح پر اُبھرتی ہوئی مذہبی لہر سے خوف زدہ ہے جس کامقابلہ کرنے کے لیے میڈیا نے بنیادپرستی کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارا پڑھالکھا طبقہ مغرب سے اس قدر متاثر ہے کہ وہ مغربی نظریات، تصورات اور اصطلاحات آنکھیں بند کرکے قبول کرلیتا ہے۔ گویا ہم نے مغرب سے جسمانی غلامی سے تو نجات حاصل کرلی ہے، لیکن ذہنی غلامی سے نہیں … ذہنی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی اسی طرح کی تحریکیں چلانے کی ضرورت ہے جس طرح ہم نے آزادی کے حصول کے لیے تحریکیں چلائی تھیں ۔